سندھ کے دورافتادہ مقام تھرپارکر میں واقع نوکوٹ، تھر کا ایک چھوٹا اور پس ماندہ شہر ہے۔ صحرائے تھر کے آغاز پر واقع ہونے کی وجہ سے اسے ’’تھر کا دروازہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ نوکوٹ شہر، میر پورخاص سے تقریباً 75کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ یہ قلعہ تھر پارکرکی تہذیب و تمدن کی عکاسی کرتا ہے ۔ تاریخ کے اوراق میں قلعے کے قیام سے متعلق جو حقائق منظر عام پر آئے ہیں، ان کے مطابق یہ قلعہ میر شیر محمد تالپور کے والدمیر علی مراد خان تالپور نے 1789ء میں تعمیر کروایا تھا۔
اس کی تعمیر کا بنیادی اور اہم مقصد تھر کے سرکش اور باغی سوڈھوں اور انگریزوں سے اپنا دفاع کرنا اور انہیں زیر کرنے کے منصوبے بنانا تھا۔ بعد ازاں میر کرم علی خان تالپور نے 1814ء میں قلعہ کی مرمت کرائی اور اسے تباہی سے بچانے کے لیے حفاظتی اقدامات کیے۔ 1783 سے 1843 تک تالپور حکم رانوں کا 60 برس کا مختصر عہد اقتدار، سیاسی ریشہ دوانیوں کا رہا، اس عرصے میں انہیں کبھی شجاع الملک کی جانب سے پریشانی تو کبھی سردار محمد عظیم سے حملے کی دھمکیاں ملتی رہیں۔
اس وقت 'عمرکوٹ پر 'جودھپورکے مہاراجہ کا قبضہ تھا، جبکہ جنوب کی طرف "سوڈھے سردار" تھر والی اراضی پر قابض تھے۔ وہ 'کلہوڑہ دور میں تو خراج دیتے تھے، مگر جیسے ہی تالپور خاندان کی حکومت قائم ہوئی انہوں نے خراج کی ادائیگی سے انکار کردیا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے میر فتح علی خان تالپور نے سوڈھوں سے خراج کی وصولی کے لیے سخت رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔
بعد ازاں تھر میں مختلف جگہوں پر قلعے تعمیر کرائے اور ان قلعوں میں حکومتی کارندوں کو بٹھایا ، جنہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ 'سوڈھوں سے بذریعہ قوت لگان وصول کریں۔ان اقدامات سے تالپور حکمران اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔یہ قلعہ تھر کے دوسرے قلعوں ، فتح گڑھ، سینگاریو، چیلہار اور اسلام کوٹ سے بڑا ہے۔ایک اندازے کے مطابق قلعہ کی تعمیر پر تقریباً 8 لاکھ روپے سے زیادہ لاگت آئی تھی۔
یہاں تالپوروں کی فوج کے سپاہی رہتے تھے۔ بارود، بندوقیں اور توپوں کا ذخیرہ بھی تھا۔قلعے کی لمبائی تقریباً 640فٹ اور چوڑائی 440فٹ ہے۔اس قلعہ کی تعمیر میں پکی اینٹوں کو جوڑنے کے لیے مٹی کا گارا اور چونا استعمال کیا گیا تھا۔ قلعے میں داخل ہوتے ہی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی محفوظ پناہ گاہ میں آگئے ہوں، اندر وسیع و عریض احاطے کے ساتھ، سامنے اور دائیں جانب کے حصے میں طویل سرنگ نما برآمدے اورغلام گردشیں بنی ہوئی ہیں۔
قلعہ کی طویل عرصے سے دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اندرونی حصے کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں جن میں سانپ اور بچھوؤں نے اپنے بل بنالئے ہیں۔ قلعے کی مغربی فصیل کے اندرونی حصے میں میروں کےمحلات اور بارہ دری وغیرہ منہدم ہوچکی ہیں۔
قلعے کے اندر مختلف مقامات پر فوجی بیرکیں بھی بنائی گئی تھیں جو اب بھی انتہائی شکستہ حالت میں موجود ہیں، دیواریں سڑک کی طرح چوڑی اور کشادہ ہیں۔ قلعہ نوکوٹ میدانی اور ریگستانی علاقوں کے سنگم پر واقع ہے۔ اس علاقے کو ’’مہرانو‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں کسی دور میں ’’ہاکڑہ ندی ‘‘ بہتی تھی جو دریا کا رخ تبدیل ہونے کی وجہ سے خشک ہوچکی ہے۔ صحرائے تھر کا یہ حصہ ضلع مٹھی کی مغربی سرحد پر واقع ہے، جہاں حدنگاہ تک ریت ہی ریت دکھائی دیتی ہے۔
گرمیوں کا سخت موسم آمدورفت کے حوالے سے سخت عذاب بن جاتا ہے۔ تپتی دوپہر میں گرم ریت پیدل چلنے والوں کو جھلسا دیتی ہے۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے یہ خطہ بے آب و گیا ریگستان دکھائی دیتا ہے۔ بارشیں اس علاقے کے باسیوں کے لیے نئی زندگی کا پیغام لاتی ہےہیں۔ بارش ہوجائے تو یہاں ہر سو سبزے کی حکم رانی ہوتی ہے اور لوگ پانی حاصل ہونے پر پھر سے کھیتی باڑی شروع کردیتے ہیں۔
نوکوٹ کے قلعے کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلا حصہ فوجی اور انتظامی حوالے سے نہایت اہم ہے۔ شاہی دروازے سے داخل ہونے کے بعد آپ 48x40 کے دمدمہ میں پہنچ جاتے ہیں، یہاں پر قلعے کی مشرقی اور شمالی دیواروں کے نیچے کمانی دار چھت والی بیرک نما کوٹھریاں ہیں،ان میں نہ کوئی کھڑکی ہے نہ ہوا اور نہ ہی روشنی کا انتظام۔تاریکی میں ڈوبی ہوئی بیرکس کےمقامی لوگ مختلف باتیں بتاتےہیں۔
کسی کا کہنا ہےکہ ان بیرکس میں بارودکا ذخیرہ رکھا جاتا تھا، جب کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں خطرناک قیدیوں کو رکھا جاتا تھا جب کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہاں پھانسی گھاٹ ہوتا تھا۔ اس جگہ پھانسی گھاٹ کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ ان کی چھتوں پر ٹانگنے کے لیے کچھ لوہے کے کڑے لگے ہوئے ہیں ،جب کہ اینٹوں سے بیٹھنے کی نشستیں بھی بنائی گئی ہیں۔ اس خوبصورت قلعہ کی نو برجیں ہیں، دو مرکزی دروازے ، تین برج شمال، جنوب اور مغربی دیوار کے بیچ میں ہیں۔ ان نو برجوں میں سب سے مضبوط برج کچھ اس طرح چھپا ہے کہ اسے ڈھونڈنا بھی مشکل ہے۔ اس کا قطر 44.6 فٹ اور اس کا گھیراؤ 139 فٹ ہے۔سب برج آہنی چٹان جیسے مضبوط ہیں۔
اس علاقے کو آباد کرنے کے لیے انگریزوں نے قلعہ کے جنوب میں ایک بازار اور کئی چھوٹی چھوٹی عمارتیں تعمیر کروائی تھیں،لیکن ان کی تعمیر کے منصوبے پر پور ی طرح عمل نہیں ہوسکا، کیوں کہ 1938ء میں ریلوے لائن بچھنے سے اسٹیشن تقریباً 6میل دور بنا اور لوگ بھی ذرائع نقل و حمل کی آسانی کی وجہ سے وہیں آباد ہوگئے۔
قلعہ نوکوٹ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ ایک مضبوط قلعہ ہے اور چھوٹا موٹا حملہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، لیکن وقت کے بے رحم تھپیڑوں نے اس قلعے کی مضبوطی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ قدیم پھانسی گھاٹ کی عمارت بھی منہدم ہو چکی ہے ، اگر فوری طور پر اس پر توجہ نہ دی گئی تو تاریخی قلعے کے آثار مٹ سکتے ہیں ۔