• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہنے میں تو یہ صرف دو الفاظ ہی تھے لیکن اگر کبھی دو الفاظ کی اہمیت ان کے لغوی معانی سے کہیں زیادہ ہوتی ہو تو ’’ہرگز نہیں‘‘(Absolutely Not) ہی وہ دو الفاظ ہیں جو وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو کے دوران کہے۔ ایچ بی او ایکسیوس (HBO Axios) کے اینکر جوناتھن سوان نے انٹرویو کے دوران جب وزیراعظم عمران خان سے سوال کیا کہ کیا وہ امریکی ادارے سی آئی اے کو القاعدہ ، طالبان اور داعش کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنے کے لئے پاکستانی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دیں گے تو وزیراعظم نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ’’بالکل نہیں‘‘۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ اس بات کا کوئی جواز نہیں کہ کسی بھی ملک یا ادارے کو افغان سرزمین پر جنگی کارروائی کیلئے پاکستانی سرزمین یا پاکستانی ہوائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کہے گئے یہ دو الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ جب سے انہوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے وہ پاکستان کے وقار اور سالمیت کی بحالی کے لئے عملی اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ اس بیرونی دبائو کا بھی مقابلہ کیا ہے جو بعض اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے اپنے اسٹرٹیجک مفادات کو تحفظ دینے کے لئے وقتاً فوقتاً پاکستان پر ڈالا جاتا رہا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کو ایک بار پھر خونریزی اور جنگ کی دلدل میں گھسیٹنا ہے۔ ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ایسے الفاظ کی ادائیگی کے گہرےاثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں جن کی مثالیں پاکستان کی مختصر تاریخ میں بھی ملتی ہیں۔ یہ اثرات پاکستان کو اندرونی اور بیرونی سطح پر غیرمستحکم کرنے کی کوششیں تیز کرنے سے لے کر بین الاقوامی اداروں بشمول ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) اور دیگر تنظیموں کے ساتھ اس کے تعلقات کو خراب کرنے کے زمرے میں آتے ہیں لہٰذا پاکستان کو اپنی ساکھ اور خودمختاری کی بحالی کے عمل میں ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ادا کئے جانے والے ان دو الفاظ کا پس منظر نیا نہیں ہے۔ انہوں نے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ قبل کہا تھا کہ جنگ کے ذریعے افغانستان میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ جب دنیا خون کی ہولی کھیلنے پر تلی ہوئی تھی تو عمران خان نے تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی بات کی تھی۔ افسوس کہ اس وقت عمران خان کی رائے کو اہمیت نہ دی گئی۔

بالآخر دنیا کو اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا کہ کئی دہائیوں سے چلے آ رہے تنازعہ کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت کی راہ ہموار کرنے کیلئے پاکستان نے ایک سہولت کار کا کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت امریکہ کو یقین دلایا گیا کہ اس کے خلاف کسی بھی طرح کی دہشت گردی کی کارروائیوں کے لئے افغان سرزمین استعمال نہیں ہوگی جس کے بعد افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا کی راہ ہموار ہوئی۔ بظاہر لگتا ہے کہ امریکہ ابھی بھی گو مگو کی کیفیت سے دوچار ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ افغانستان کے اندر آپریشن کرنے کے لئے اس کی جنگی صلاحیت برقرار رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے امریکی حکومت نے القاعدہ، طالبان اور داعش کے خلاف ممکنہ ڈرون حملے شروع کرنے کے لئے پاکستان سے ہوائی اڈوں کے حصول کیلئے درخواست بھی کی جو قبول نہیں کی گئی۔ اگر پاکستان کی موجودہ قیادت امریکہ کو ہوائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دے دیتی تو اسے بلاشبہ سابق آمر ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل گردانا جاتا جن کی بدولت پاکستان کو ان جنگوں میں گھسیٹا گیا جن کے ساتھ اس کا کوئی واسطہ نہ تھا۔

پاکستان کو ان جنگوں میں حصہ لینے کی پاداش میں جان ومال کی شکل میں ایک بھاری قیمت ادا کرنا پڑی جس کے باوجود امریکہ کی جانب سے ’’ڈو مور‘‘ کے مطالبات بھی سننے کو ملے۔پاکستان ایک ایسے شیطانی کھیل میں پھنس گیا جس کا اصل ہدف پاکستان کے چین کے ساتھ برادرانہ اور دوستانہ تعلقات اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی)کا منصوبہ ہے جو امریکی حکومت کو اپنے مفادات سے متصادم نظر آتاہے۔امریکہ پاکستان کو اس بات پر مجبور کرنا چاہتا ہے کہ وہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو بتدریج محدود کرے اور امریکہ کے ساتھ اپنے روابط بڑھائے لیکن پاکستان کے لئے ہر وقت اور ہر آزمائش پر پورا اترنے والے دیرینہ دوست چین کے ساتھ تعلقات کم کرنے کے لئے غور کرنا بھی ممکن نہیں۔

وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ادا کئے گئے ’’ہرگز نہیں‘‘ کے الفاظ محض پاکستان کے بنیادی مفادات سے ٹکرائو کے خلاف ایک پختہ عزم کو ظاہر نہیں کرتے بلکہ یہ الفاظ ان ملک دشمن قوتوں کے لئے بھی واضح پیغام ہیں جو تشدد اور دہشت گردی جیسی کاررروائیوں کو ایک بار پھر پاکستان میں پنپنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ دونوں الفاظ ’’ہرگز نہیں‘‘ ایک خودمختار، باوقار اور قابلِ فخر ملک کی حیثیت سے پاکستان کی بحالی کی علامت ثابت ہوں گے۔ پاکستان ایک روشن مستقبل کی جانب رواں دواں ہے۔

(صاحبِ تحریر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)

تازہ ترین