پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا میں ضلع چترال سلسلہ ہندوکش میں واقع ایک دلکش وادی ہے۔ یہ دلکش مناظر اور خوشگوار موسم کے لیے سیاحوں میں کافی مقبول ہے۔ تاہم، اس کی وجہ شہرت صرف قدرتی خوبصورتی ہی نہیں بلکہ یہاں موجود چند تاریخی قلعے بھی ہیں۔ 1895ء میں یہ ایک علیحدہ ریاست تھی۔ 1969ء میں چترال کی ریاست پاکستان میں ضم ہوگئی تھی۔ چترال کے قلعوں کی تعمیر میں لکڑی کو پتھر کی دیواروں کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہے۔ لکڑی کا استعمال چترال جیسے خشک موسم میں کارآمد رہتا ہے۔
یہ لاہور کے شاہی قلعے جیسے نہیں ہوتے بلکہ ان کا مستطیل یا چوکور احاطہ ہوتا ہے۔ ان کی دیواریں مٹی، پتھر اور چوبی شہتیروں سے اٹھائی جاتی تھیں اور بلندی بھی زیادہ نہیں رکھی جاتی تھی۔ قلعوں کے کونوں پر نگرانی کے لیے برج بنائے جاتے تھے اور اندر رہائشی تعمیرات کی جاتی تھیں۔چترال صدیوں سے یورپی اور ایشیائی حکمرانوں کی گزرگاہ رہا ہے کیونکہ یہ چین اور شمالی مغربی ہندوستان کے درمیان مختصر راستہ تھا۔
قلعہ چترال
قلعے کی تعمیر مقامی لوگوں نے اس وقت کے مقامی طرز تعمیر کے مطابق کی تھی۔ یہاں چترال کے حکمران یا مہتر رہا کرتے تھے۔ قلعہ کا قدیم حصہ خالص مقامی طرز تعمیر کا آئینہ دار ہے۔ یہ قلعہ1895ء میں تعمیر کیا گیا تھا مگر اس پر حملے کے دوران بیشتر حصہ منہدم ہوگیا تھا۔ قلعے کا بنیادی حصہ 1926ء میں دوبارہ تعمیر کیا گیا، جس میں قلعے کا بیرونی حصہ، دربار ہال اور دفاتر کی عمارت تعمیر کی گئی جبکہ مزید تعمیر نو 1940ء کی دہائی میں ہوئی، جس میں مغل طرز کے مرکزی دروازے کی تعمیر بھی شامل ہے۔ یہ دروازہ اب بھی اپنی تمام تر خستہ حالی اور بدحالی کے باوجود خوش نما ہے۔
قلعے کی بیرونی دیواریں، باغ کی دیواروں کی پرانی لکیر کے بارے میں بتاتی ہیں۔ پرانے قلعے کے ہر کونے پر ایک برج بنایا گیا جبکہ ایک مینار بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ قلعے کے برج تقریباً 15میٹر بلند جبکہ مینار21میٹر اونچا بنایا گیاتھا۔ ٹاور کے بالائی خانے میں داخلے کے لیے لمبی بیرونی سیڑھی تھی جو محاصرے کے دوران صرف اندھیرے میں ہی استعمال ہوسکتی تھی۔ پانی کا مینار ، جو دریا کے اُس پار سے دیکھا جاسکتا ہے وہ بھی بعد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ برآمدے زمین سے اونچے بنائے گئے تھے، جن کی بالائی منزل پر رہائشی کمرے تھے۔ قلعے کا عقبی دروازہ ایک شکستہ بالکنی پر کھلتا ہے، جس کی ریلنگ اب موجود نہیں ہے۔
اس کے شمال مشرقی برج میں داخل ہوں تو کھلی اور کم اونچائی والی سیڑھیاں بل کھاتی ہوئی اوپر لے جاتی ہیں۔ اوپر ایک چوکور کمرہ ہے، جس کی چھت جگہ جگہ سے اور فرش کہیں کہیں سے ٹوٹا ہوا ہے۔ اس کمرے کے چاروں طرف لکڑی کا برآمدہ ہے۔ قلعے کی کئی دیواریں، چھتیں، تہہ خانے، کھڑکیاں، دروازے شکستہ حال اور اجاڑ ہیں۔ قلعے کے بعض حصے آج بھی قدرے بہتر حالت میں موجود ہیں، جس میں شاہی مہمان خانہ قابل ذکر ہے۔
یہاں قدیم قندیلیں اور کاشی کاری سے مزئین دَرو دیوار کے علاوہ پشاور کے قدیم محلہ سیٹھیان کی حویلیوں جیسا آرائشی کام دیکھنے کو ملتا ہے۔ چھت پر موجود بڑے کمرہ خاص کو چترال کے مہتروں (حکمرانوں) کی تصاویر سے سجایا گیا ہے۔ قلعے کے باہر ماضی کی زنگ آلود توپیں بھی موجود ہیں۔ تاہم ،یہ قلعہ اس وقت کے جدید مغل طرزِ تعمیر کا ایک حسین امتزاج معلوم ہوتا ہے۔ قلعہ کی دو جانب بڑے بڑے سر سبز باغات موجود ہیں۔
قلعہ مستوج
یہ قلعہ چترال کی تحصیل مستوج میں 18ویں صدی میں تعمیر کیا گیا۔ یہ قلعہ شندور پاس کے قریب دریائے یارخون اور دریائے مستوج کے سنگم پر ایک سطح مرتفع پر واقع ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ قلعہ کٹور خاندان نے1780ء میں تعمیر کروایا تھا جبکہ 1830ءمیں اس کے کچھ حصوں کی ازسرنو تعمیر کی گئی۔ تاہم 1920ء کی دہائی میں اس کی ایک بار پھر تعمیر نو کی گئی۔
قلعہ تین حصوں میں تقسیم تھا، ایک میں انگریز افسروں کی رہائش گاہیں اور بیرکیں تھیں، دوسرا حصہ باغ پر مشتمل تھا جبکہ تیسرے حصے میں شہزادے ( مہترِ چترال کا بیٹا) کی رہائش تھی۔ اس کے علاوہ اس میں جیل، مسجد اور دفاتر بھی تھے۔ 1895ء کے دوران اس علاقے میں ہونے والی محازآرائی میں یہ قلعہ جندولی اور انگریز رجمنٹ کے درمیان محاذ آرائی کا گڑھ رہا۔ اب اس کے اندر ایک ہوٹل بنا ہوا ہے۔
قلعہ دروش
اسے مقامی زبان کھوار میں شاہی قلعہ اور دروشپو قلعہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ضلع چترال کے گرم چشمہ میں ایک پہاڑ پر تعمیر کیا گیا۔ یہ اس علاقے کا ایک مضبوط قلعہ تھا، جس کے چھ برج تھے۔ کہا جاتا ہے کہ پرانے قلعے سے 200میٹر کے فاصلے پر دروش میں ایک نیا قلعہ تعمیر کیا گیا تھا۔ 1895ء میں پرانے قلعے کو انگریزوں نے چترال میں اپنی فورسز کے لیے تیار کیا، جس کے لیے انھوں نے نیاقلعہ گرا دیا تھا اور اس کی لکڑی کو پرانے قلعے میں استعمال کیا۔ قلعے کے لیے دریا سے گزرنے کا ایک نیا راستہ بنایا گیا تھا۔