• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجودہ حکمرانوں نے الیکشن جیتنے کے بعد بڑے پرجوش انداز میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ معاشی دھماکہ کریں گے انہوں نے حسب وعدہ ”معاشی دھماکہ“ کردیا ہے۔ دھماکے کے ثمرات پاکستانی عوام تک پہنچنے شروع ہوگئے ہیں۔ اب جب کوئی غریب کارکن فون میں سو روپے کا کارڈ ڈالوتا ہے تو قریباً نصف رقم دھماکے کی نذر ہوجاتی ہے ۔ پیٹرول مہنگا ہونے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تمام چیزوں پر پیٹرول چھڑک دیا گیا ہو۔ میرا خیال تھا کہ سگریٹ مہنگے ہونے پر میرے دوست عطا الحق قاسمی ضرور احتجاج کریں گے مگر وہ ہنوز خاموش ہیں، پتہ نہیں انہیں معاشی دھماکے نے کیوں خاموش کروادیا ہے۔
صاحبو! برسوں بعد آئی ایم ایف کا نام اخبارات کی زینت بنا ہوا ہے ورنہ ہم یہ تذکرہ بھول گئے تھے۔ معاشی دھماکے کی کرامات ہیں کہ صبح شام آئی ایم ایف کا ورد ہونے لگا ہے۔ خدا خیر کرے جس طرح ایک بینکار اچھا وزیر خزانہ نہیں ہوتا اسی طرح ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بھی فنانس کے معاملات کو اچھے طریقے سے سنبھالنے سے قاصر ہوتا ہے اور پھر ایسا شخص جسے تجربہ بھی ایک ہی فرم کا ہو، جس کا اپنا کاروبار ملک سے باہر ہو اور وہ لوگوں کو اندرون ملک سرمایہ کاری کا مشورہ دیتا ہو۔ بہرکیف قوم کو نیا کشکول مبارک ہو، رہی بات معاشی دھماکے کی تو اس کے مزید اثرات رمضان المبارک کی برکات کے ساتھ شروع ہوں گے۔
میں جب آج کے وزرائے خزانہ کی بے بسی دیکھتا ہوں تو مجھے عمر بن عبدالعزیز کا وزیر خزانہ یاد آجاتا ہے کہ جب خلیفہ وقت گھریلو حالات سے تنگ آکر وزیرخزانہ کو خط لکھتا ہے کہ مجھے ایک مہینے کی تنخواہ ایڈوانس دے دی جائے۔ جواباً وزیرخزانہ اسی خط کی پشت پر لکھتا ہے کہ آپ مجھے ایک مہینے کی زندگی کی گارنٹی دے دیں، میں آپ کو تنخواہ دے دیتا ہوں۔ بس یاد دہانی کیلئے اتنا ہی کافی ہے۔ مزید کچھ یاد کرایا تو کام خراب ہوجائے گا۔ ایک دفعہ پھر سے آپ کو مبارک ہو کہ پاکستانی حکومت اور آئی ایم ایف میں رشتہ طے پا گیا ہے۔ رشتہ تو رشتہ ہی ہوتا ہے بے شک قرض ہی کا کیوں نہ ہو۔اس سے پیشتر میں نے ایک کالم ”دہشت گردی کا بھوت“ کے زیرعنوان لکھا تھا مجھے افسوس ہے کہ پچھلے ہفتے بھی دہشت گردی جاری رہی،کراچی میں موت کی جھڑی، کوئٹہ میں ہزاروں کی ہزاروں آہیں اور پشاور میں بکھری ہوئی لاشوں کا منظر…پاکستان کی پوری تصویر کو دہشت گردی نے داغ دار کئے رکھا۔ کوئٹہ کے ہزارے اپنے مکتبہ فکر کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ایک اچھا کام یہ ہوا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کے پچاس سے زائد مفتیوں نے فتویٰ صادر فرما دیا ہے کہ مذہب کے نام پر دہشت کا بازار گرم کرنے والوں کو کچل دینا چاہئے۔ محبتوں کے سفر کے لئے دہشت گردوں کا خاتمہ ضروری ہے تاکہ ایک پرامن پاکستان میں خوشحالی کا سفر ہوسکے، یاد رہے کہ خوشحالی کبھی بھی بدامنی کے دامن سے لپٹ کر نہیں آتی۔ یہ دلوں کو محبتوں میں بدلنے سے آتی ہے بقول نیلما درانی
ہر طرف صحرا تھا، کانٹے تھے، سلگتی ریت تھی
کیسا جل تھل ہوگیا ہے دل سے دل ملنے کے بعد
خواتین و حضرات! کل پانچ جولائی ہے یہ دن تاریکیوں کی یاد دلاتا ہے۔ اسی دن کے نتیجے میں عوامی آواز کو دبا دیا گیا تھا پھر اسی دن کی بے ڈھنگی چال نے پاکستان کو دنیائے سیاست کے عظیم رہنما بھٹو سے محروم کردیا۔ پانچ جولائی کو شروع ہونے والے سفر نے ملک کو بدامنی کی دلدل میں دھکیل دیا، معاشرے کو گھٹن زدہ بنا دیا۔ پاکستان کی تاریخ میں چار فوجی آمر آئے دو یعنی ایوب خان اور یحییٰ خان 1973ء سے پہلے آئے۔ 1973ء کے آئین میں آرٹیکل چھ شامل کیا گیا، یاد رہے کہ کوئی بھی قانون موثر بہ ماضی نہیں بنایا جاتا لہٰذا ایوب خان اور یحییٰ خان پر تو آرٹیکل چھ لاگو نہیں ہوسکتا۔ 1973ء کے بعد آنے والے دو آمروں ضیاء الحق اور پرویز مشرف پر آرٹیکل چھ کا نفاذ ہوتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پرویز مشرف ہی کیوں؟ جرم دونوں نے کیا، سزا ایک کو کیوں؟اگر بغور جائزہ لیا جائے تو پھر پتہ چلتا ہے کہ ضیاء الحق کا نام کیوں نہیں لیا جارہا، محض اس لئے کہ پھر بہت سے نام ایسے سامنے آجائیں گے جو یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ گنگا نہا چکے ہیں اگر ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے ادوار کا موازنہ کیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ ضیاء الحق نے ملک میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کو ہوا دی، اس دور میں منشیات کو فروغ ملا، کلاشنکوف کلچر کا آغاز ہوا، معاشرے میں منافقت اور رشوت پنپنے لگی۔ معاشرہ لسانی اور صوبائی تعصبات کے سبب تقسیم در تقسیم ہوا، سیاسی کارکنوں کو کوڑے مارے گئے، سیاست کیلئے مذہب کا نام استعمال ہوا تو کبھی برادریوں کا نام استعمال ہوا۔ طلبہ سیاست پر پابندی لگا کر غریبوں کے لئے سیاست کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ پاکستان کی لبرل سوسائٹی کو قید کر دیا گیا، معاشرے سے رنگ ختم کرکے مقدر میں تیرگی لکھ دی گئی۔ ضیاء الحق دور کی بے شمار خرابیاں ہیں مگر میرے کالم میں جگہ کم ہے۔ دوسری طرف بارہ اکتوبر 1999ء کو اقتدار سنبھالنے والے پرویز مشرف کا دور ہے۔ اس دور میں سیاسی کارکنوں پر کوڑے نہیں برسائے گئے۔ پرویز مشرف کے عہد میں جبر کے وہ پہاڑ نہیں توڑے گئے جو ضیاء الحق کے دور میں توڑے گئے تھے۔ مشرف نے مذہب کو سیاست کے لئے استعمال نہیں کیا۔ اس نے دہشت گردی اور فرقہ پرستی کی نفی کی۔ پرویز مشرف نے ایک ہمہ جہت اور لبرل معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس نے یہ بھی کاوش کی کہ پاکستان کی بہار کے دن لوٹ آئیں، اس نے کم سے کم قرضے لئے، مہنگائی پر کنٹرول کیا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کو ساٹھ پر رکھا، اس کے دور میں بے شمار ترقیاتی کام ہوئے، ٹیلی کام سیکٹر میں انقلاب آیا، پاکستان کا جیتا جاگتا الیکٹرونک میڈیا پرویز مشرف کا مرہون منت ہے۔
ضیاء الحق نے اقتدار پر خود قبضہ کیا تھا جبکہ پرویز مشرف قبضے کے وقت فضا میں تھے بلکہ حکومت نے پرویز مشرف کو آرمی چیف کے عہدے سے اس وقت ہٹایا جب وہ بیرونی دورے پر سری لنکا گئے ہوئے تھے۔ اقتدار پر قبضے کے سارے کھیل میں پرویز مشرف شریک ہی نہیں تھا یہ کام دیگر جرنیلوں نے کیا اور اس لئے کیا کہ آرمی چیف کی توہین کی گئی تھی۔ خیر اس غیر جمہوری رویّے پر جب سید ظفر علی شاہ نے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو جواب نفی میں ملا، عدالت نے بارہ اکتوبر کے اقدام کی توثیق کردی، 2003ء میں پارلیمینٹ نے بھی سپریم کورٹ کے اقدام کی توثیق کردی حالانکہ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل چھ کی شق تین میں لکھا ہوا ہے کہ کوئی بھی ادارہ بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کسی غداری کے ارتکاب کی توثیق نہیں کرسکتا۔ مگر افسوس پاکستان میں 1973ء کے بعد ایسا ہوا۔ اب اگر آرٹیکل چھ پر عملدرآمد کرنا ہی ہے تو آغاز پانچ جولائی سے کیجئے پھر 12/اکتوبر کا حساب لیجئے۔ مدد اور معاونت کرنے والوں کا بھی حساب ہو، رہی بات تین نومبر 2007ء کی تو وہ تو 5جولائی اور بارہ اکتوبر کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، چھوڑیئے منافقت، چھوڑ دیجئے۔ جرم کا حساب برابر کیجئے۔ جاتے جاتے میانوالی کی سنگلاخ زمینوں کے شاعر مظہر نیازی کا خوبصورت شعر آپ کی نذر کررہا ہوں کہ
شہر چھوٹا ہے مگر دل ہے کشادہ اتنا
ہم بڑے شہر میں ہوتے تو سمندر ہوتے
تازہ ترین