• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کی صفوں میں جو اختلافات ہیں اور جن کے مظاہر سامنے آتے رہتے ہیں،بجٹ اجلاس میں بھی اس کا اظہار ہو رہا ہے،جہانگیر ترین کے گروپ نے تو کئی ہفتوں تک غیر یقینی کی کیفیت پیدا کئے رکھی۔اب اس معاملے پر پراسرار خاموشی ہے نہ کوئی شوگر مافیا کا تذکرہ کرتا ہے اور نہ ہی یہ اعلان کرتا ہے کہ اپنا ہو یا پرایا ہر ایک کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہو گا۔جہانگیر ترین گروپ نے تو بہرحال اپنی قوت ثابت کر دی اور جو حلقے صبح شام جہانگیر ترین کو اِدھر یا اُدھر ہو جانے کی تلقین کر رہے تھے وہ بھی خاموش ہو گئے ہیں، اب جو کچھ بھی ہونا ہے بجٹ کی منظوری کے بعد ہی ہونا ہے اس وقت تک پارٹی کے اندر مخالفین کو بھی برداشت کیا جائے گا اور اتحادیوں کو بھی۔اتحادی اگرچہ2023ء تک حکومت کے ساتھ رہنے کے اعلانات کر رہے ہیں، لیکن وہ حکومت مخالف سگنل بھی کسی نہ کسی انداز میں بھیجتے رہتے ہیں۔ان حالات میں حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی صفوں کے اندر سے اٹھنے والی اختلافی آوازوں پر دھیان دے۔ حکومت کا ہر چھوٹا بڑا دعویٰ کر رہا ہے کہ کرپشن کا خاتمہ اس کا ہدف اول ہے،لیکن حکومتی پارٹی کے اپنے ہی ارکان، قومی اسمبلی کے ایوان میں کہہ رہے ہیں کہ بیورو کریسی میں رشوت بہت بڑھ گئی ہے،اس میں کتنی حقیقت ہے، حکومت کو پتہ چلانا چاہئے۔ پچھلے دِنوں ایسے الزامات لگائے گئے تھے کہ ڈپٹی کمشنر جیسے اعلیٰ عہدوں پر بھی رشوت دے کر تقرر ہو رہے ہیں۔قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کے دوران تحریک انصاف کے رکن میجر(ر) طاہر صادق نے 3 ہزار ارب روپے سے زائد کے بجٹ خسارے پر سوال اٹھا دیا۔اُن کا کہنا تھا کہ یہ خسارہ کیسے پورا کیا جائے گا؟ اس کے لئے نئے قرضے لئے جائیں گے یا ٹیکس لگائے جائیں گے۔وزیراعظم تبدیلی لانا چاہتے ہیں،لیکن غیر منتخب معاونین ِ خصوصی کا گروپ تبدیلی نہیں چاہتا۔جو الیکشن جیت کر نہیں آ سکے، وہ کیا کریں گے؟ وزیراعظم اگر حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو غیر منتخب معاونین ِ خصوصی کو فارغ کریں اور قابل لوگوں کو عہدے دے کر ملک کو بہتر بنائیں۔تحریک انصاف کے ایک اور رکن نور عالم بھی اپنی ہی حکومت پر برس پڑے،انہوں نے کہا کہ احساس پروگرام کے بدلے بجلی اور پٹرول سستا کر دیتے تاکہ غریب کو فائدہ پہنچتا، عوام کو بھکاری بنایا جا رہا ہے،جب میں نے مہنگائی کے خلاف بات کی تو میرے پیچھے بھی نیب کو بھیج دیا گیا۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی سمیت سب وزرائے خزانہ یہی کہتے آئے ہیں کہ پچھلے برباد کر گئے،میں صحیح کر رہا ہوں۔انہوں نے ادویات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کی طرف بھی توجہ دلائی،بجٹ پر بحث کے دوران تحریک انصاف کے ارکان آپس میں الجھتے رہے،مسلم لیگ(ن) کے احسن اقبال نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے ایٹمی پروگرام کے بارے میں وزیراعظم کے بیان کو ہدفِ تنقید بنایا اور کہا کہ ایٹمی پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ عمران خان کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ دنیا کو کہیں کہ ایٹمی پروگرام پر بات ہو سکتی ہے،انہوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بیس فیصد اضافے کا مطالبہ کیا۔

دوسری جانب انتخابی اصلاحات کے نام پر الیکشن قوانین میں جو ترامیم کی جا رہی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ ماہرین آئین و قانون اور الیکشن کمیشن نے بھی وزارتِ پارلیمانی امور اور انصاف و قانون کے نام خط لکھ دیا ہے کہ کون کون سی مجوزہ ترمیم آئین کی شقوں سے متصادم اور منافی ہے۔ خط میں وزارتِ پارلیمانی امور سے کہا گیا ہے کہ وہ یہ معاملہ وزیراعظم کے نوٹس میں لائے۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ قائمہ کمیٹی برائے قانون کے اجلاس میں مجوزہ ترامیم پر الیکشن کمیشن کے اعتراضات مسترد کرنا ناقابلِ فہم ہے اس کے ذریعے الیکشن کمیشن کے وہ اختیارات محدود کر دیئے گئے ہیں جو اسے آئین کے تحت حاصل ہیں۔ الیکشن کمیشن نے 22شقوں پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے اس پر مزید کہاکہ الیکشن ایکٹ کی شقیں24، 26، 28، 29، 30،31، 32، 33، 34، 36 اور 44 آئین کے آرٹیکل 219اے اور 222کے ساتھ متصادم ہیں۔ انتخابی حلقہ بندیوں کی ترمیم آبادی کی بجائے ووٹروں کی بنیاد پر کی جا رہی ہے وہ بھی آئین سے متصادم ہے کیونکہ آئین کا آرٹیکل 51 قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد آبادی کے لحاظ سے مقرر کرتا ہے، اسی طرح سینیٹ کے الیکشن کے حوالے سے سیکشن 122 میں خفیہ رائے شماری کی جگہ اوپن بیلٹ کا لفظ بھی آئین کے آرٹیکل 226اور سپریم کورٹ کے صدارتی ریفرنس کے متعلق فیصلے سے متصادم ہے۔

تازہ ترین