• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل جناب آصف علی زرداری کی لاہور آمد اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی سمیت دیگر سیاسی شخصیتوں سے ملاقاتوں کو پنجاب میں پیپلز پارٹی کی تشکیلِ نو کے حوالے سے کافی اہمیت دی جارہی ہے۔ اس ضمن میں پنجاب کی کچھ اہم شخصیات کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بارے میں بھی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہور میں جنم والی اور کسی وقت پنجاب کی مقبول ترین سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اس وقت پنجاب میں کمزور ترین پوزیشن میں ہے اور اسکی پنجاب اسمبلی میں صرف سات سیٹیں ہیں جو نہ صرف پیپلز پارٹی کے قائدین بلکہ ہر اس سیاسی کارکن کے لئے لمحہ فکریہ ہے، جس نے پیپلز پارٹی کے پرچم تلے کئی فوجی ڈکٹیٹروں کے خلاف جمہوریت کی بحالی کی تحاریک میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ قیدو بند اور دیگر مصائب کا مقابلہ کیا۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں جمہوریت اور عوامی راج کے قیام کے لئے جتنی قربانیاں پیپلز پارٹی نے دی ہیں کوئی دوسری جماعت اس کا عشرِ عشیر بھی پیش نہیں کرسکی نہ کر سکتی ہے۔ پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور انکے خاندان کے باقی افراد نے اپنی جانوں کی قربانی دیکر ثابت کیا کہ پیپلز پارٹی نے پس پردہ قوتوں سے سمجھوتہ کرکے بیرونِ ملک چلے جانے کی بجائے وطن میں رہ کر دلیری سے ان قوتوں کا مقابلہ کیا۔ اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور شہادت ہماری منزلِ مقصود جیسے نعروں کو سچ ثابت کیا۔ صرف یہی نہیں پیپلز پارٹی کے کریڈٹ پر جو کارنامے ہیں نہ تو کوئی پارٹی انکی نظیر پیش کر سکتی ہے اور نہ ہی تاریخ انہیں فراموش کر سکتی ہے۔ پاکستان جو ’’ سرزمینِ بے آئین‘‘ کہلاتا تھا۔ اور جسکے دولخت ہونے میں کسی جمہوری آئین کا نہ ہونا بھی شامل تھا اسے 25سال کے بعد پیپلز پارٹی نے متفقہ جمہوری آئین دیا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی ، پاکستان کی آزادخارجہ پالیسی کا آغاز کیا اور چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو مستحکم بنایا۔ عوام کو سیاسی شعور بخشا اور انہیں پہلی مرتبہ قومی دھارے میں شریک کیا۔ پیپلز پارٹی کی ہر حکومت میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ریکارڈ اضافہ کیا گیا۔ حالیہ بجٹ میں بھی وفاق اور دیگر صوبوں کے 10فیصد کے مقابلے میں سندھ حکومت نے 20فیصد اضافہ کیا اور مزدور کی کم از کم تنخواہ 25ہزار روپے مقرر کی جو تمام صوبوں سے زیادہ ہے۔جناب آصف علی زرداری کی کردار کشی کی مہم میں سارے ریکارڈ توڑ دیے گئے لیکن اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی جوانی کے 11سال جیل میں کاٹ دیے لیکن صدرِ پاکستان کی حیثیت سے انہوںنے اپنے مخالفین سے سیاسی انتقام لینے کی بجائے قومی مفاد میں ’’مفاہمت‘‘ کا راستہ اختیار کیا ان کے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھااور میڈیا بلا روک ٹوک ان پر تنقید کرتا تھا۔ یہی نہیں انہوں نے 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے نہ صرف صوبائی خود مختاری کا دیرینہ مسئلہ حل کردیا بلکہ اپنے بے پناہ صدارتی اختیارات بھی منتخب جمہوری پارلیمنٹ کو واپس کردیے ۔ جو ڈکٹیٹروں نے اپنے مفادات کے لئے چھین لئے تھے۔گویا پارلیمانی جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے بھٹو شہید نے آئین سازی کا جو عمل شروع کیا تھا ۔ آصف علی زرداری نے 18ویں ترمیم کے ذریعے اسے مزید مضبوط بنا دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت پیپلز پارٹی سب سے زیادہ جمہوریت پسند، روشن خیال اور لبرل سیاسی جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے۔ایسے شاندار ماضی کی حامل جماعت کی پنجاب میں عدم مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اسکے کارناموں اور جدوجہد کو نئی نسل میں منتقل نہیں کیا جا سکا۔ حالانکہ بلاول بھٹو زرداری کی شکل میں سب سے زیادہ نوجوان قیادت بھی پیپلز پارٹی کے پاس ہے اور بلاول بھٹو کی سیاست کو چوہدری نثار احمد نے ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا تھا کہ 18کے الیکشن میں بلاول بھٹو نے سب سے بہتر اور سیاسی تدبّر کے ساتھ اپنی انتخابی مہم چلائی۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے زوال کی سب سے بڑی وجہ 1977 کے بعد پارٹی کا پنجاب میں برسرِ اقتدار نہ آنا ہے ۔ 85کے غیر جماعتی انتخابات اور 1988کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو پنجاب سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا کردار تاریخ کا حصہ ہے۔ جس کے تحت آئی جے آئی کی تشکیل اور انتخابی دھاندلیوں کے ذریعے پیپلز پارٹی سے پنجاب چھین لیا گیا۔ لیکن پہلے پنجاب کو نواز لیگ اور بعد میں پی ٹی آئی کے حوالے کرنے اور پی ٹی آئی کی ناکام حکومت کے بعد پنجاب میں پیدا ہونے والے سیاسی خلاکو پُر کرنے کے لئے پارٹی کے پاس سنہری موقع ہے کہ وہ پنجاب میں نوجوان نسل کو پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے میں قائدانہ کردار دے۔ کیونکہ پنجاب کے عوام نہ صرف پیپلز پارٹی کی عوامی جدوجہد میں شریک رہے ہیں بلکہ اسے ایک متبادل قیادت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

تازہ ترین