اسلام آباد (خبر نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کو پیکا ایکٹ کے تحت نوٹس جاری کرنے کے ایس او پیز بنانے کا حکم جاری کرتے ہوئے 30 جولائی تک رپورٹ طلب کر لی ۔ دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ ایف آئی اے ہزاروں شکایات کو چھوڑ کر صحافیوں کو نوٹس کر رہا ہے ،ایف آئی اے صحافیوں کو اسی طرح نوٹس دیتا رہا تو کوئی نہیں بچے گا ، یہ تاثر زائل کریں کہ ایف آئی اے محض چند صحافیوں کو ٹارگٹ کر رہی ہے ، کسی کو وجہ بتائے بغیر نوٹس کرنا اسے دھمکی دینے اور خوفزدہ کرنے کے مترادف ہے۔ گزشتہ روز چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جنگ کے کالم نگار بلال غوری اور صحافی اسد طور کی ایف آئی اے کے کال اپ نوٹسز کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی، چیف جسٹس نے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سائبرکرائم ونگ کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ نوٹس پر کوئی تاریخ نہیں لکھتے اور کہتے ہیں ہمارے پاس پیش ہو جائیں ، ایسے تو نہیں ہوتا۔ یہاں کچھ بنیادی حقوق ہیں ، ان کا بھی خیال رکھنا ہے۔ اپنے اختیار کو احتیاط سے استعمال کریں ، عدالت نے بار بار کہا لیکن عدالتی احکامات پر عمل نہیں ہو رہا۔ ایف آئی اے کے کئی نوٹس معطل کئے لیکن اس میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ ایک شخص کہتا ہے فلاں کے بارے میں کچھ کہا گیا تو کیا وہ جرم بن جائے گا ؟جس کا وقار کسی نے خراب کیا وہ شکایت کنندہ ہو سکتا ہے،یہ نہیں ہو سکتا میرے خلاف کوئی بات کرے آپ کسی اور کی شکایت پر ایف آئی آر درج کر لیں ایسا نہیں ہے مجھے ہی شکایت کنندہ ہونا ہو گا،آپ سوسائٹی میں خوف پھیلا رہے ہیں۔