• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے بدھ کے روز قومی اسمبلی میں کی گئی اپنی تقریر میں قوموں کے عروج و زوال کے اسباب بعض حقائق اور مثالوں کے ساتھ بیان کرتے ہوئے جہاں اپنی حکومت کی اب تک کی کارکردگی بالخصوص پاکستان کو فلاحی ریاست کی راہ پر گامزن کرنے کی کاوشوں پر روشنی ڈالی وہاں افغانستان کی صورتحال، مسئلہ کشمیر، انتخابی اصلاحات کی ضرورت، قومی خودمختاری کے تقاضوں، ٹیکسوں کی ادائیگی کی ضرورت اور مستقبل کے لائحہ عمل سمیت متعدد موضوعات کا احاطہ کیا۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ایوان زیریں سے 88منٹ کے خطاب میں عمران خان نے دوست ممالک چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا بطور خاص شکریہ ادا کیا جنہوں نے مشکل وقت میں پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا۔ انکے بیان کے بموجب پاکستان نے آج پہلی مرتبہ فلاحی ریاست کی اس سمت کو اپنایا ہے جس پر 74برس قبل سفر شروع ہو جانا چاہئے تھا۔ وزیراعظم نے انسانیت، انصاف اور خود داری کے اصول اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے واضح کیا کہ دنیا میں وہی معاشرے خوشحال ہوئے جہاں انصاف فراہم کیا گیا اور کسی ملک میں تباہی اس وقت آتی ہے جب حکمراں پیسہ چوری کرکے ملک سے باہر بھیجتے ہیں۔ وزیراعظم نے ایوان اسمبلی میں پہلی باربذات خود حزب اختلاف کو دعوت دی کہ وہ حکومت کیساتھ مل کر انتخابی اصلاحات کیلئے کام کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہی شفاف الیکشن کا واحد راستہ ہے تاہم اپوزیشن کے پاس دیگر تجاویز ہیں تو ہم سننے کو تیار ہیں۔ اس پیشکش کے حوالے سے مبصرین کا خیال ہے کہ مذاکرات کی میز سجنے کا امکان نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ وزیراعظم کی اس تقریر کے بعد پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس میں الزام لگایا کہ حکومت انتخابی اصلاحات میں سنجیدہ نہیں جبکہ بجٹ فیصلے امیروں کیلئے فائدے اور غریبوں کے لئے مشکلات کا ذریعہ بنے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کی ضرورت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمیں خوددار قوم بننا ہے تو ٹیکس دینا پڑے گا اور ٹیکس نہ دینے والے افراد کو جیل جانا پڑیگا۔ وزیراعظم نے خارجہ امور کے حوالے سے بعض دو ٹوک باتیں کہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی قوم اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ 5اگست 2019کا اقدام واپس لینے تک بھارت سے سفارتی تعلقات بحال نہیں ہوں گے۔ افغانستان کے حوالے سے ان کا موقف ہے کہ ہم وہاں امن کے شراکت دار ہو سکتے ہیں لیکن جنگ میں ساتھ نہیں دے سکتے۔ عمران خان کے بقول ماضی میں امریکی جنگ میں ہمارا شامل ہونا ایسا غیردانشمندانہ عمل تھا جس میں اسلام آباد کے تعاون کو سراہنے کی بجائے الزامات لگائے گئے۔ وزیراعظم نے درست طور پر واضح کیا کہ پاکستان کو افغانستان میں اپنی پسند کی حکومت نہیں چاہئے، اسلام آباد تزویراتی گہرائی نہیں امن چاہتا ہے۔ یہ بات بہرطور مدنظر رکھنے کی ہے کہ افغانستان کے حالات کا پاکستان پر براہ راست اثر مرتب ہوتا ہے۔ ایسے وقت کہ امریکہ وہاں سے اپنی افواج نکال رہا ہے، افغانوں کی اپنی مرضی و منشا کے مطابق کوئی میکنزم نہ بنا تو پورے خطے بالخصوص پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیفیت یہ ہے کہ داخلی مسائل و مشکلات سے نکلنے کی کاوشیں پوری طرح بارآور نہیں ہوئی ہیں جبکہ کشمیر اور افغانستان سے ملنے والے بعض اشارے سنگین چیلنجوں کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اس صورتحال کا تقاضا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی قیادتیں مشاورت اور افہام و تفہیم کے لئے پارلیمنٹ کے فورم سے پورا فائدہ اٹھائیں اور اسکے علاوہ بھی باہمی رابطوں کا ایسا میکنزم بنائیں جس کے ذریعے ہر قسم کی صورت حال میں مل جل کر لائحہ عمل بنانا اور آگے بڑھنا آسان ہو۔

تازہ ترین