• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی یومِ امدادِباہمی: معاشی انقلاب کی تحریک

امداد ِباہمی ایک معاشی اور سماجی تحریک ہے۔ آج دنیا کی تمام بڑی شخصیتیں اور اہلِ دانش اس بات پر متفق ہیں کہ امدادِ باہمی ایک ایسی تحریک ہے جو ہر ملک کی دیہاتی اور شہری آبادی کے لئے خوشحال زندگی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

انٹرنیشنل کوآپریٹو الائنس نے کوآپریٹو ڈے کے حوالے سے اپنے پیغام میں کہا کہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ تحریک امدادباہمی ہے کیا، گزشتہ سال یہ بات ہمارے مشاہدے میں آئی ہے کہ کوآپریٹو ماڈل کس طرح لوگوں کی فلاح و بہبود اور کرہ ارض کی عزت و تکریم کیلئے کام کر رہا ہے ۔ ہم واقعتاََ بہتر طور پر ایک ساتھ مل کرمعاشی انقلاب کیلئے جدوجہد کر سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم بہت ساری مثالیں دیکھیں گے کہ بعد از کوروناکس طرح کوآپریٹو تحریک معاشرے کو مضبوط بنانے میں مدد دے سکتی ہے ۔ دنیا بھر میں صحت ، زراعت ، پیداوار، مالیات، رہائش، روزگار ، تعلیم ، معاشرتی خدمات اور بہت سے دوسرے شعبوں میں جہاں کوآپریٹو ادارے موجودہیں وہاں ایک ارب سے زیادہ کوآپریٹو ممبران یہ ثابت کرتے ہیں کہ مشترکہ خوشحالی پیدا کرتے ہوئے کوویڈ19کے فوری اثرات سے نبرد آزما ہوا جا سکتا ہے ۔ ICAنے دنیا بھر کے معاونین اور شراکت داروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 3جولائی 2021کو COOPs Dayکو جوش و خروش سے منانے کیلئے تیار ہوں تاکہ ہم دنیا کو یہ بتا سکیں کہ ہم مل کر کس طرح بہتر تعمیر نوکر سکتے ہیں۔

امدادِ باہمی کی عالمی تحریک کا مقصد استحصالی قوتوں سے چھٹکارا حاصل کرکے اپنے وسائل یکجاکرتے ہوئے مل جل کر کام کرنا اور وسائل کی سب تک تقسیم یقینی بنانا ہے ، بلاشبہ یہ تحریک ہمیں اتفاق و اتحاد کا درس بھی دیتی ہے۔ پنجاب میں کوآپریٹو اداروں کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں زراعت اور ہائوسنگ سیکٹر میں کوآپریٹو اداروں کی کارکردگی بہتر نظر آتی ہے۔ کوآپریٹو اداروں نے ایک طرف کاشتکاروں میں اربوں روپے سالانہ کے قرضہ جات تقسیم کئے تو دوسری طرف کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹیز نے عوام کو رہائشی سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے کام کیا ہے۔اس تحریک کے قیام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ سب مل جل کر اپنی اور ملکی معاشی حالت بہتر بنائیں۔ اس عالمی تحریک کا نعرہ ـ’’ ایک سب کیلئے اور سب ایک کیلئے‘‘ ہے جس کا مقصد اس کی اصل روح کے مطابق عمل کرتے ہوئے اِسے تمام شعبہ ہائے زندگی میں لاگو کر کے اپنی معاشی حالت بہتر بنانا ہے۔ اس تحریک کا عالمی سطح پر جائزہ لیا جائے تو ہمیں جاپان، سنگا پوراور اپنے ہمسایہ ملک بھارت میں اس کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ حالات و واقعات کے مشاہدے سے معلوم ہوتاہے کہ دنیا بھر میں ایک قوم دوسری قوم اور ایک ملک دوسرے ملک سے کسی نہ کسی صورت میں امداد اور تعاون کی اپیلیں کرتے ہیں ۔ انٹرنیشنل کوآپریٹو الائنس بھی موجودہ دور کی مختلف اقسام کی تنظیموں میں سے ایک ایسی تنظیم ہے جس کا قیام اگست 1895 کو عمل میں آیاجس کا مقصد بنی نوع انسان کی فلاح و بہبودتھا اوراس کی بنیاد باہمی تعاون سے اپنی مدد آپ پررکھی گئی۔ یومِ امدادباہمی منانے کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ دنیا بھر کے تمام کوآپریٹران ہر سال اپنے اس پختہ یقین اورارادے کا اظہار کریں کہ وہ انسانیت کی بقا کے لئے کوشاں رہیں گے ۔عالمی سطح پر یہ دن منانا اس لئے بھی شروع کیا گیاکہ بنی نوع انسان کی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے بین الاقوامی تحریک سے وابستہ اقوام اپنی کوششوں کو جاری رکھنے کے عزم کی تجدید کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو پختہ یقین اور مکمل اعتماد سے امدادِ باہمی کےاپنےاداروں کو محنت ، دیانت اور لگن سے زیادہ سے زیادہ موثر اور فعال بنائیں۔ زراعت اور صنعت کا پہیہ توانائی کے سر پر چلتا ہے۔ ہماری قوم اور اس دنیا کی خوشحالی کا دارومدار ان دو سیکٹرزکی ترقی پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ توانائی کے موجودہ ذرائع کا عقل مندانہ استعمال اور نت نئے ذرائع کی تلاش ان دونوں میدانوں کی ترقی میں سنگِ میل ثابت ہوسکتی ہے۔ امدادباہمی کے ادارے توانائی یا انرجی کے سیکٹر میں بھی سرمایہ کاری کرکے انسانیت کو بدحالی اور معاشی پسماندگی سے باہر نکال سکتے ہیں۔یوں تحریکِ امدادِباہمی لوگوں کے جملہ اقتصادی و معاشی مصائب حل کرنے میں بڑی سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔امدادباہمی کی تحریک ملک میں معاشی انقلاب برپا کر سکتی ہے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے لائق اور جو ان سائنسدان جو جذبہ، جوش اور بلند ارادوں کے مالک ہیں، وہ ہر مسئلہ کا ممکن حل تلاش کر لیں گے اور پاکستان کو حقیقتاًایک فلاحی مملکت بنا دیں گے جہاں پر لوگوں کو نہ صرف بنیادی ضروریات میسر ہو ں گی بلکہ دوسری سہولتیں بھی حاصل ہوں گی ۔عوام کو بھی چاہئے کہ وہ باہمی یگانگت اور اتحاد سے کام لیں ۔ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے ۔ اس کی کم و بیش 60سے70 فیصد آبادی دیہات میں ہے جس کا ذریعہ معاش بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت ہے۔ کاشت کاروں کو اپنی روز مرہ کی اشیاء کے علاوہ بیج کھاد آلات وغیرہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور ان کے حصول کے لئے روپیہ ، پیسہ وغیرہ بھی۔ ان تمام مسائل کا حل امداد باہمی کے نظام میں پوشیدہ ہے۔مستقبل ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ ہم چاہیں اس کو بنا لیں یا بگاڑ دیں ۔ آج کے دن ہمیں یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم سچائی، دیانتداری اور بے لوث خدمت کے جذبہ سے سرشار ہو کر خلوصِ دل سے تحریک امداد باہمی کو پاکستان میں زیادہ فعال اور موثر بنانے میں اپنا کردار ادا کر یں گے۔ اللہ کرے پاکستان میں تحریک امداد باہمی کو زیادہ سے زیادہ فروغ حاصل ہو اور اس مقصد کے حصول میں اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے۔

تازہ ترین