اکیلا کالم کدھر کدھر جائے اور کس کس کو بھگتائے؟ جی چاہتا ہے کہ پہلے موضوعات کی پرچیاں ڈالوں اور پھر جس ترتیب سے پرچیاں نکلیں اسی ترتیب سے اظہار خیال کروں لیکن اتنا تردد کون کرے؟ کیوں نہ پاکستان کی طرح اندھا دھند، الل ٹپ بلکہ ”اتھے وا“ چلیں اور شروع کریں اس آئی ایم ایف سے جس کی آنکھوں میں آنکھیں اور بانہوں میں بانہیں ڈال کر اپنے اسحاق ڈار صاحب وہ ”ٹھوٹھا“ بھر لائے ہیں جسے حرف عام میں ”کشکول“ کہتے ہیں۔ ”شیر پر سوار اسحاق ڈار کے کنگ سائز چمکدار کشکول میں قرضہ کے ساتھ ساتھ وہ شرمناک شرائط بھی ہیں جو عوام کو پوری کرنا ہوں گی، چاہے انہیں پورا کرتے کرتے ان کی رہی سہی سانسیں بھی پوری ہو جائیں۔ اسحاق ڈار کو کشکول گدائی کا طعنہ دو تو چڑ کر کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ مسئلہ کا حل ہی کوئی نہیں تو یہ سوفیصد سچ ہے لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھائی! اگر حقائق یہی ہیں جو کہ ہیں تو پھر انتخابی مہم میں بڑھکیں مارنے، بڑی بڑی گپیں چھوڑنے اور عوام کے ساتھ لمبے لمبے جھوٹے بولنے کی ضرورت کیا تھی؟ کیا مقصد صرف عوام کو بیوقوف بنانا اور اقتدار میں آنا تھا تو اب تم بھی بھگتو اور عوام بھی، ہمارے بہت سے المیوں میں سے ایک یہ ہے کہ لیڈر پلان کر کے، سوچ سمجھ کر جانتے بوجھتے ہوئے جھوٹ بولتے اور عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ان اوسط درجہ سے بھی کم درجہ کے لیڈران کے نزدیک عوام کو بیوقوف بنانا، دھوکہ دینا اور ان کے ساتھ فراڈ کرنا ہی سیاست کی معراج ہے۔ عوام کی رگیں اور شہ ر گیں کاٹنے کے ساتھ ساتھ ان کے اثاثوں کی ”ن“ سے نیلامی کا بھیانک وقت قریب سے قریب تر آ رہا ہے۔ کاش! اس ملک کے معتبر اور موثر ادارے عوام کے نیلام کا یہ کاروبار روک سکیں کہ اگر اس ملک کے اثاثے بھی بک گئے تو یہ اس کا آخری المیہ ہو گا جس کے سامنے یونانی المیہ بھی طربیہ دکھائی دے گا۔ عوام کمر کس لیں کہ مہنگائی کا کمر توڑ اگلا راؤنڈ تیار سمجھو۔ سال چھ مہینے میں سارے شوق پورے ہو جائیں گے اور یہ ”کشکول لیگ“ تمہارے ساتھ وہ کچھ کرے گی جو بھوکا شیر اپنے شکار کے ساتھ کرتا ہے، کئی سال کا بھوکا! نصیحتیں تو گئیں بھاڑ میں، وصیتیں تیار کراؤ حالانکہ وہ بھی بیکار ہی ہوں گی کہ ان پر عملدرآمد کرنے والا بھی شاید کوئی نہ ہو۔
اب چلتے ہیں اپنی لاڈلی کارپوریٹ کلچر فیم تحریک انصاف کی طرف جس پر شاید کسی نے تعویذ کر دیئے ہیں، پہلے اس کا جاوید ہاشمی المعروف ”باغی“ میاں نواز شریف کے بارے اسمبلی میں یہ کہتا ہوا دیکھا سنا گیا کہ میاں صاحب کل بھی اس کے لیڈر تھے، آج بھی اس کے لیڈر ہیں۔ بندہ پوچھے اگر یہی سچ ہے تو پھر تحریک انصاف میں تم ”امب“ لینے آئے تھے؟ رہی سہی کسر ”کے پی کے“ کے کانگڑی فلوکئے چیف منسٹر پرویز خٹک نے یہ کہہ کر پوری کر دی کہ وہ میاں شہباز شریف کے نقش قدم پر چلیں گے، اگر ”جذبہ“ اور ”جذبات“ یہی ہیں تو ” پی ٹی آئی“ کو ن لیگ میں ضم کیوں نہیں کر دیتے؟ جہاں تک تعلق ہے عمران خان کی اس ضد کا کہ ”ڈرون گراؤ“ تو یہ بھی ”کشکول توڑ دینگے“ جیسی ن لیگی بونگی ہے۔ اس سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ وہی کچھ ہو سکتا ہے جو سرکس کا شیر مسلسل کر رہا ہے، یعنی ”احتجاج“۔ اکھاڑے کے باہر بیٹھ کر بڑھکیں مارنا اور مشورے دینا بہت آسان، اکھاڑے میں اتر کر جان جوکھم میں ڈالنا اور قسم کا امتحان ہے۔ منڈی پہنچو گے تو معلوم ہو گا کہ کس بھاؤ بکتی ہے اور پلے کیا ہے؟ اخلاقی، اقتصادی، سماجی، روحانی، جذباتی، نفسیاتی غرضیکہ ہر حوالہ سے روبہ زوال قوم نہیں، ہجوم… سپر پاور کو چیلنج کرے گا؟ ہجوم بھی وہ جس میں سانپ چھوڑ دیئے گئے ہوں۔
اپنی اصل اوقات کے بارے میں عوام کو اعتماد میں لو لیکن یہ بیچارے ”تھوتھا چنا باجے گھنا“ ٹائپ فکری قحط کا شکار قیادتیں ان لغویات کے علاوہ اور کر ہی کیا سکتی ہیں؟ بلٹ پروف میں سوار عقلوں پیدل!
ایک اور بیان بھی حیران کن ہے… ادھر ڈالر پہلی بار 100 روپے سے اوپر ٹپانے والے ”ڈار… لنگ“ نے کشکول بھرا ادھر میاں شہباز شریف نے چین سے یہ بیان داغ دیا… ”کشکول توڑ دیا، چین سے بھیک مانگنے نہیں آئے، حالانکہ چین بھیک نہیں کچھ اور دیتا ہے۔ صدقہ زکوة، خیرات، قرضہ، قرض حسنہ… بھیک کی بہت سی قسمیں ہیں جس میں ”ٹیکنالوجی ٹرانسفر“ بھی شامل ہے۔ گند خود ڈالنا اور صفائی کے ٹھیکے ترکی کو دینا بھی بھیک ہی کی ایک معزز شکل ہے لیکن یہ بات ان لوگوں کی سمجھ میں آ ہی نہیں سکتی کیونکہ قیادت اور کلرکی میں فرق ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا تو ٹھیک ہی کہا ہو گا کہ … ”پولیس اور محکمہ مال ٹھیک ہو جائیں تو پورا ملک ٹھیک ہو سکتا ہے، اللہ کرے یہ ایسا اور اتنا ہی سادہ معاملہ ہو کیونکہ میری سوئی تو مدتوں سے اس پر اٹکی ہوئی ہے کہ جب تک کیریکٹر بلڈنگ“ نہیں ہو گی، اس معاشرہ میں کچھ بھی ”بلڈ“ یعنی تعمیر نہ ہو سکے گا اور تخریب درتخریب ہی ہماری تقدیر رہے گی اور یہ کیسے ممکن ہے کہ پولیس اور محکمہ مال جیسے ”اعضاء“ ٹھیک ہو جائیں، باقی سارا بدن کینسر اور کوڑھ میں مبتلا رہے تو مریض صحت مند ہو جائے گا؟سب سے آخر پر ہمدم دیرینہ اپنے 44 سالہ پرانے یونیورسٹی دوست جہانگیر بدر کیلئے بہت سی مبارکباد کہ اب پی ایچ ڈی کے بعد وہ جنیوئن… ”ڈاکٹر جہانگیر بدر ہے، بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ جہانگیر بدر کی ڈگریوں کے نیچے اچھا خاصا عالم بھی دب جائے تو اٹھنے نہ پائے لیکن اس کی خوبصورتی یہ کہ اس نے نہ کبھی پیپلز پارٹی چھوڑی نہ اپنا مخصوص لاہوری بلکہ ”لہوری“ انداز، اسلوب اور لب و لہجہ تبدیل کیا کہ ”سچل“ لوگ نہ دھڑے چھوڑتے ہیں نہ تھڑے… جیو ”جے بی“ جیو!
”تم سا ہو تو سامنے آئے“