اشرف علی
1875میں مسٹرالیگزینڈر کننگھم نے ہڑپہ سے برآمد ہونے والی ایک ایسی مہر کے بار ے میں انکشاف کیا تھا، جس کو میجر جنرل کلارک نے دریافت کیا تھا۔ یہ ایک سیاہ رنگ کے قیمتی پتھر کی سِل تھی جس کے دائیں جانب دو ستارے بنائے گئے تھے۔ اس سِل پر ایک بغیر کوہان کے بیل کی شکل کھینچی ہوئی تھی۔ اگرچہ اس کی عبارت پڑھی نہ جا سکی تاہم ماہرین کا یہ خیال تھا کہ یہ خط مقامی ہونے کے بجائے بیرونی علامات کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ پہلی دریافت تھی جس نے وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب سے دلچسپی رکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ الیگزینڈر کا خیال بعد میں بدلا اور اس نے تحقیقی مقالے میں یہ رائے قائم کی کہ ا س سل پر جو تحریر کندہ ہے، اسے قدیم اشوکی خط کہا جا سکتا ہے جو بائیں سے دائیں جانب لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ 1886ء میںالیگزینڈر نے اسی طرح کی ایک اور سل کا انکشاف کیا جو ہڑپہ کے آثار کی کھدائی کے دوران دستیاب ہوئی جس کو دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ یہ سل مقامی ہونے کے بجائے کسی بدھ بھکشو کی یہاں آمد کے وقت ساتھ لائی گئی لگتی ہے۔ مسٹر لانگ ورتھ ڈیم اور مسٹر جی۔ آر۔ ہنٹر نے اپنے ڈاکٹری کے تحقیقی مقالے کے لیے تقریباً 750 ایسی سلوں (مہروں) کو سامنے رکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان پر پائی جانے والی تحریر خالصتاً فونیٹک ہے۔
اگرچہ اس کی ابتدا پکٹو گرافک یا آئی ڈیوگرافک ہے۔ اس کے برخلاف ایک ہندی ماہر مسٹر پران ناتھ کا خیال تھا کہ یہ خط بجائے کسی اور خط کے براہمنی خط کے زیادہ قریب ہے، جبکہ ایک اور ہندی اسکالر مسٹر اے۔ پی۔ کرمکار نے اس تحریر کو سنسکرت میں پڑھنے کی کوشش کی اور یہ کہا کہ یہ تحریریں ویدک اور اس کے بعد کے دور کی کہی جا سکتی ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ تحریر آرین اور ڈراوڑی قوموں کے باہمی ملاپ کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے۔ اس دوران اردو اور سندھی کے ماہرین لسانیات نے بھی ان تحریروں کو پڑھنے کی کوششیں کیں۔
ان میں بعض کی رائے میں یہ خط قدیم عربی رسم الخط کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے جبکہ ڈاکٹر احمد حسن دانی ماہر آثار قدیمہ و (تاریخ و جغرافیہ) نے ان تحریروں کو جیومیٹری کی مختلف اشکال کی روشنی میں پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ معروف ماہر آثاقدیمہ سرمورٹیمر وہیلر نے تمام تحقیقات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تحریری مواد نا کافی اور مسلسل نہ ہونے کی وجہ سے موہن جوڈرو اور ہڑپہ کی تحریروں کو صحیح طور پر پڑھنا بہت دشوار ہے۔ تا ہم دنیا کے مختلف اداروں میں تحقیقاتی کام جاری ہے اور امید ہے کہ جلد انسانی تہذیب کی اولین تحریروں کو پڑھا جا سکے گا۔