افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی اپنے آخری مراحل میں ہے اور طالبان مزید علاقوں میں کنٹرول حاصل کر رہے ہیں۔ صورتحال تقریباً وہی دکھائی دے رہی ہے جو 1989میں سوویت افواج کے انخلا کے وقت تھی۔ تب 30سے40لاکھ افغان مہاجرین پاکستان آکر ملک بھر میں پھیل گئے تھے بعید نہیں کہ اب یہ ایک کروڑسے بھی زیادہ ہوں ۔افغان آلام اپنی جگہ پاکستان اب ماضی کی غلطیاں دہرانے کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔شنید ہے کہ ان حالات میں مہاجرین کی پاکستان آمد بھی ناگزیر ہے لیکن اس مرتبہ اسلام آبادبجا طور پر افغان سرحد کھولنے کے حق میں نہیں۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بتایا کہ اگرضروری ہوا توحکومت ایرانی ماڈل کی پیروی کرے گی۔اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کی رپورٹ کے مطابق ایران میں 8 لاکھ افغان مہاجرین موجود تھے، اُن سب کو1980 کے دہائی میں ایرانی سرحدی علاقوں میں قائم گاؤں میں رکھا گیا، انہیں شہروں اور قصبوں میں آباد ہونے کی اجازت نہ تھی ۔دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے اتوار کی شام نو منتخب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران یہ مسئلہ اٹھایا اور فیصلہ کیا گیاکہ پاکستان کی وزارت داخلہ، سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر متعلقہ محکموں کے عہدیداروں پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی ٹیم، ماڈل کے کامیاب نفاذ کو سمجھنے کے لئے جلد ہی ایران کا دورہ کرے گی۔دوسری جانب چیف کمشنر برائے افغان مہاجرین سلیم خان نے کہا کہ اگرچہ پاکستان، اقوام متحدہ کے مہاجرین کے کنونشن 1951 اور 1967 کے پروٹوکول پر دستخط کنندہ نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود یہ ملک 4دہائیوں سے زیادہ عرصے سے لاکھوں سے زیادہ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔ایران اگر دہشت گردی سے محفوظ رہا تو اس کے پیچھے دانشمندانہ حکمت عملی تھی ،اس کے بر عکس پاکستان میں دہشت گردی نے مقتل سجائے تو ملک کی معیشت بدحالی بھی اسی کا شاخسانہ تھی۔