حضرت ابراہیم ؑ کی حیاتِ طیّبہ کے ہر ورق پر کسی نہ کسی قربانی کی داستان رقم ہے۔آپؑ نے جب شعور کی آنکھ کھولی، تو اپنے اردگرد بُت پرستی اور ستارہ پرستی کا ماحول پایا۔لوگوں نے چاند، سورج اور ستاروں کے نام پر مندر بنا رکھے تھے۔شرک اور بُت پرستی کا سب سے بڑا مرکز والد کے گھر میں قائم تھا کہ وہ نہ صرف خود بُت تراش اور بُت فروش تھا، بلکہ اپنے عہد کے مشرکین کے بُت کدوں کا محافظ و نگران بھی تھا۔چناںچہ، حضرت خلیل اللہؑ نے اپنے گھر ہی سے شرک کی مذمّت و انکار کا آغاز کیا، جو بلاشبہ ایک بہت بڑی قربانی تھی۔
آپؑ نے والد سے ارشاد فرمایا’’ کیا تُو بُتوں کو معبود بناتا ہے؟بے شک مَیں تجھے اور تیری قوم کو کُھلی گم راہی میں دیکھتا ہوں۔‘‘(سورۃ الانعام،آیت 74)۔ دوسرے مقام پر اِسی اعلانِ حق کا ذکر یوں ہوا’’جب اُنہوں(حضرت ابراہیمؑ ) نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کِن چیزوں کی عبادت کرتے ہو۔کیا تم جھوٹے معبود بناتے ہوئے اللہ کے سِوا دوسروں کو چاہتے ہو ؟‘‘(سورۃ الصافّات،آیت85, 86)۔اپنے خود تراشیدہ خداؤں کی تکذیب پر باپ بھی خفا ہوا اور قوم بھی۔
پھر آپؑ نے شرک کے زبانی انکار کی بجائے عملی اقدام کا فیصلہ کیا۔قوم سالانہ میلے میں شرکت کے لیے شہر سے باہر جانے لگی، تو آپؑ کسی بہانے گھر ہی پر ٹھہر گئے۔لوگوں کے چلے جانے کے بعد آپؑ نے سب سے بڑے بُت کدے کا رُخ کیا، جہاں مختلف دھاتوں اور پتھروں سے تراشے گئے معبودانِ باطلہ کے سامنے نذرونیاز کی مٹھائیوں اور پھلوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔آپؑ نے اُن سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا ’’کیا تم (یہ مٹھائیاں) نہیں کھاؤ گے؟تمھیں کیا ہو گیا کہ تم بولتے بھی نہیں ؟‘‘(سورۃ الصافّات، آیت 91,92)حضرتِ انسان کے ہاتھوں کے تراشے ہوئے صنم بَھلا کیا جواب دیتے۔
چناں چہ، آپؑ نے اپنے دائیں ہاتھ میں موجود ہتھوڑے سے اُن پر پے درپے ضربیں لگانی شروع کردیں۔ تھوڑی ہی دیر میں اُن جھوٹے خداؤں کا یہ حال کردیا کہ کسی کا ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا، تو کسی کا پاؤں۔ کسی کا سَر غائب تھا اور کسی کی ناک اُڑ چُکی تھی۔ قوم نے میلے سے واپسی پر جب اُن سے بازپُرس کی، تو اُنھوں نے ایک بار پھر اُنہیں دعوتِ حق دیتے ہوئے ارشاد فرمایا’’کیا تم عبادت کرتے ہو اُن کی، جن کو تم تراشتے ہو؟حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا ہے اور اُن چیزوں کو بھی جن کو تم بناتے ہو۔‘‘(سورۃ الصافّات، آیت95,96)۔
اِس سوال پر لاجواب ہو کر قوم نے آپؑ کو آگ میں زندہ جلانے کا فیصلہ کیا، جو اُس دَور کی سخت ترین سزا تھی۔آگ کے لیے ایندھن جمع کرنے کی مہم ایک ماہ تک جاری رہی۔مقرّرہ تاریخ پر آگ جلائی گئی، تو اُس کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ حضرت ابراہیمؑ کو منجنیق پر رسّیوں سے باندھ کر الاؤ کے وسط میں پھینک دیا گیا۔ تاہم، اِسی ساعت خالقِ کائنات کی طرف سے فرمان جاری ہوا’’اے آگ! ہو جا تُو ٹھنڈی اور سلامتی والی ابراہیمؑ پر۔‘‘(سورۃ الانبیاء، آیت69) اُس عہد کا بادشاہ، نمرود اُن چار بادشاہوں میں شامل ہے، جنھوں نے دنیا کے ایک بڑے حصّے پر حکومت کی۔نمرود کا پایۂ تخت بابل تھا، جو موجودہ بغداد سے تقریباً ایک سو میل کی مسافت پر واقع اپنے عہد کا مشہورو متمدّن شہر تھا۔
نمرود وہ پہلا حکم ران تھا، جس نے سب سے پہلے اپنے سَر پر تاجِ شاہی پہنا۔ وہ خود کو خدا کہلواتا اور شاہی دربار میں حاضر ہونے والوں سے خود کو سجدہ کرواتا۔ایک روز حضرت ابراہیمؑ بھی دربار میں تشریف لے گئے، لیکن اُسے سجدہ نہ کیا۔ اُس نے اِس حکم عدولی کی وجہ دریافت کی، تو آپؑ نے فرمایا کہ’’ مَیں اپنے ربّ کے سِوا کسی کو سجدہ نہیں کرتا۔‘‘ایسا کھرا جواب سُن کر وہ کٹ حُجتی پر اُتر آیا۔ باتوں ہی باتوں میں جنابِ خلیل اللہ ؑ کو لاجواب کرنے کی سعی کی، تو اُنہوں نے جواباً ایسا دندان شکن سوال کیا کہ جس کا جواب دینے پر بادشاہ قادر نہ تھا۔
قرآنِ مجید نے اس مناظرانہ مکالمے کی منظرکشی یوں کی ہے’’کیا آپ نے اُس شخص کی طرف نہیں دیکھا، جس نے حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ جھگڑا کیا تھا ،اُن کے ربّ کے بارے میں۔ اِس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کو بادشاہی دی تھی۔جب ابراہیم ؑ نے کہا کہ’’ میرا ربّ وہ ہے، جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے‘‘،تو وہ شخص کہنے لگا،’’مَیں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔‘‘ابراہیم ؑ نے کہا، ’’بے شک اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی جانب سے لاتا ہے۔تم اس کو مغرب کی طرف سے لاؤ۔‘‘پس وہ شخص مبہوت رہ گیا، جس نے کفر کیا تھا‘‘ (سورۃ البقرہ،آیت258)۔
جب قوم کی طرف سے ایذا رسانیاں حد سے بڑھ گئیں، تو بارگاہِ الٰہی سے ہجرت کا حکم آ گیا۔چناں چہ حضرت ابراہیمؑ اپنے وطن، بابل کو چھوڑ کر شام و فلسطین روانہ ہو گئے۔مِصر پہنچے، تو وہاں ایک اور امتحان اُن کا منتظر تھا۔حاکمِ مصر نے اُن کی زوجہ مطہرہ، حضرت سارہؓ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جسارت کی، لیکن نصرتِ الٰہی کے سبب اپنی حرکت پر نہ صرف نادم ہوا، بلکہ سیّدہ حاجرہؓ کو خدمت کے لیے حضرت ابراہیمؑ کے حضور پیش کردیا، جن سے آپؑ نے نکاح فرمالیا۔
حضرت ابراہیمؑ کا پہلا نکاح 37 برس کی عُمر میں ہوا تھا اور اب عُمر مبارک اَسّی برس ہو چُکی تھی، لیکن باری تعالیٰ نے تاحال اولاد کی نعمت سے نہیں نوازا تھا۔ایک روز اپنے مالک کے حضور عرض گزاری ’’اے پروردگار! مجھے نیکوں میں سے بیٹا عطا کر دے۔ ‘‘(سورۃ الصافّات،آیت 100)۔ربّ ِ کریم نے دُعا کو شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے ارشاد فرمایا’’پس ہم نے بشارت دی اُن کو ایک لڑکے کی، جو نہایت بُردبار تھا ‘‘(سورۃ الصافّات، آیت 101)۔ جب بڑے صاحب زادے، حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوئے، تو ایک اور قربانی کا حکم آ گیا۔اب کی بار ارشاد ہوا کہ اپنے شیر خوار بچّے اور اُن کی ماں کو مکّے کی وادیِ غیر ذی زرع میں چھوڑ آئیں۔پس، تعمیلِ ارشاد میں آپؑ ماں، بیٹے کو وہاں چھوڑ آئے، جن کے پاس مُٹھی بھر کھجوروں اور پانی کی ایک چھاگل کے سِوا کچھ نہ تھا۔
کھجوریں اور پانی ختم ہوا، تو بھوک اور پیاس ستانے لگی۔ معصوم بیٹے کو پیاس کی شدّت سے ایڑیاں رگڑتے دیکھ کر امّاں حاجرہؓ صفا و مروہ نامی پہاڑیوں پر دوڑنے لگیں کہ شاید کوئی قافلہ اِدھر کو آتا دِکھائی دے، جس کے پاس پانی میّسر ہو۔ اس تڑپ اور قربانی پر رحمتِ الٰہی جوش میں آگئی۔ سیّد الملائکہ ؑ کو حکم ہوا کہ اپنا پَر زمین پر مارو۔فرشتے کا پَر جس جگہ لگا، وہاں سے ایسے متبرّک پانی کا چشمہ جا ری ہوا، جو بیک وقت دوا، شفا اور غذا کا مجموعہ ہے۔ایک روایت کے مطابق، آبِ زم زم کہلانے والا یہ پانی کوثر و سلسبیل سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔
جب حضرت اسماعیلؑ بارہ تیرہ برس کے ہوئے، تو جنابِ خلیل اللہ ؑ کو خواب میں حکم ہوا کہ اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کردیں۔نبیؑ کا خواب عام لوگوں کے خواب جیسا نہیں ہوتا، بلکہ وہ وحی ہی کی ایک قسم ہے، چناں چہ آپؑ نے بیٹے سے اس خواب کا تذکرہ کرتے ہوئے دریافت فرمایا’’اے بیٹے! بے شک، مَیں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے ذبح کررہا ہوں۔دیکھو! تمھارا اِس بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘(جواب میں بُردبار بیٹے نے عرض کیا)’’اے والد! جس کام کا آپؑ کو حکم دیا جا رہا ہے، اُسے کر گزریے، اِن شاء اللہ آپؑ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘(سورۃ الصافّات،آیت102)۔تاریخِ عالم میں شاید ہی ایسی کوئی مثال ملتی ہو کہ باپ بھی قربانی کے لیے تیار ہو اور بیٹا بھی۔
جنابِ خلیل اللہؑ نے اپنے بُردبار بیٹے کو سیدھا لِٹانے کی بجائے پیشانی کے بَل زمین پر لِٹایا کہ کہیں اپنے لال کا چہرہ دیکھ کر شفقتِ پدری جوش میں نہ آجائے اور حکمِ الٰہی کی تعمیل میں کوئی کوتاہی سرزد نہ ہو جائے۔لیکن باپ، بیٹے کی خواہش و کوشش کے باوجود چُھری نہ چلی، کیوں کہ حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی مقصود نہیں تھی، بلکہ دنیا کو اپنے خلیلؑ کا جذبۂ ایمان و اطاعت دِکھانا مقصود تھا۔چناں چہ، حضرت اسماعیلؑ کی جگہ بہشت سے ایک مینڈھا بھیجا گیا، جسے حضرت ابراہیم ؑ نے ذبح فرمایا۔ بلاشبہ، یہ حضرت ابراہیم ؑ اور اُن کے گھرانے کا سب سے بڑا امتحان اور سب سے بڑی قربانی تھی۔
اب حضرت ابراہیم ؑ پر انعامات کا سلسلہ شروع ہوا۔ بخاری و ترمذی شریف کی ایک روایت کے مطابق باری تعالیٰ میدانِ حشر میں سب سے پہلے اپنے خلیل، حضرت ابراہیمؑ کو لباس پہنائیں گے۔ آپؑ کو یہ اعزاز و انعام اپنی قوم کی طرف سے برہنہ کرکے آگ میں پھینکنے کے عوض عطا کیا جائے گا۔جب آپؑ تمام امتحانوں میں کام یاب ہوئے، تو باری تعالیٰ نے خوش ہو کر یہ انعام بھی عطا فرمایا’’مَیں آپ ؑ کو لوگوں کا امام (یعنی پیشوا) بنانے والا ہوں۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت124)۔
آپؑ نے حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ مل کر کعبۃ اللہ کو از سرِ نو تعمیر فرمایا۔ سورۂ ابراہیمؑ میں جنابِ خلیل اللہؑ کی اُن پیاری پیاری دعاؤں کا ذکر موجود ہے، جو اُنھوں نے اُس موقعے پر مکّے، اس کے مکینوں، اپنی اولاد کی ہدایت اور رزقِ حلال کے لیے بارگاہِ ربّانی میں پیش کیں۔ ساتھ ہی عرض کیا کہ’’ الٰہی! مَیں نے اس لَق و دَق صحرا اور اس بے آب و گیاہ بیابان میں، تیرے گھر کے پڑوس میں اپنی اولاد کو اِس لیے بسایا ہے کہ وہ تیری عبادت کرتے رہیں۔الٰہی! لوگوں کے دِلوں میں ان کی محبّت اور لگن پیدا کر دے تاکہ وہ ان کے پاس کِھنچ کِھنچ کر چلے آئیں۔یہ وادی، جہاں سرسبزی و شادابی کا دُور دُور تک نشان نہیں، اِس میں رہنے والوں کو کھانے کے لیے تازہ پھل عطا فرما۔‘‘حضرت ابراہیم ؑ کی یہ ساری دعائیں قبول ہوئیں۔باری تعالیٰ نے مکّہ مکرّمہ کو’’ دارالامن‘‘ بنا دیا۔
وہ عاشقانِ الٰہی کے لیے ایک ایسی بستی ہے، جہاں حاضر ہونے کی تڑپ ہر مومن کے دل میں موج زن ہے۔بے آب و گیاہ وادی ہونے کے باوجود دنیا کا ہر پھل وہاں میّسر ہے۔وہ ایسی بستی ہے، جہاں دن رات رحمتِ الٰہی برستی ہے اور یہ سب حضرت ابراہیمؑ کی دعاؤں کا ثمر ہے۔ حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کا جذبہ خالقِ کائنات کو اِس قدر پسند آیا کہ ہر سال 10 ذی الحج کو صاحبِ استطاعت اہلِ ایمان کے لیے قربانی کی عبادت لازمی قرار دے دی گئی۔صفا و مروہ کے درمیان حضرت حاجرہؓ کا دوڑنا اِتنا اچھا لگا کہ حکم جاری فرما دیا کہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کا حج و عُمرہ اس سعی کے بغیر مکمل نہ ہوگا۔
حضرت ابراہیم ؑ کو سب سے بڑا انعام یہ عطا ہوا کہ آپؑ نہ صرف بعد میں آنے والے تمام انبیاءؑ کے جدّ ِ امجد ہیں، بلکہ باری تعالیٰ نے آپؑ کے نورِ نظر، حضرت اسماعیلؑ کی اولاد میں سے امام الانبیاء، حضرت محمّدﷺ کو پیدا فرمایا۔بلاشبہ، جتنی بڑی قربانی تھی، باری تعالیٰ نے انعام بھی اتنا ہی بڑا عطا فرمایا۔