• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور چین کی دوستی اُس مرحلے سے گزر چکی ہے کہ جس میں کسی بھی نوعیت کی دراڑ کا امکان موجود ہو۔ راقم الحروف کی جب کبھی چین کے علاوہ دیگر ممالک کے سفارت کاروں یا دانشور صاحبان سے ملاقات ہوئی تو ایک بات ہی ان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ پاک چین دوستی کو اس نظر سے نہ دیکھیں کہ یہ کوئی ایسا اتحاد ہے جو کسی دوسرے ملک کے خلاف قائم ہو چکا ہے بلکہ اب تو اس دوستی کی تازہ نوعیت میں 2015کے معاشی پہلو کو بہت زیادہ نمایاں حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور معاشی سرگرمیوں کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں مفادات کو دیگر ممالک سے مثبت تعلقات قائم ہونے سے طاقت حاصل ہوتی ہے۔ اسی لئے جب 2015میں اُس وقت کی پاکستانی حکومت نے سی پیک کا معاہدہ کیا تو دنیا کو چین کے ساتھ مل کر یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ یہ معاہدہ کسی مخاصمت کا آئینہ دار نہیں ہے بلکہ دنیا کے زیادہ سے زیادہ ممالک کی اِس میں شمولیت سے اِس کی افادیت مزید بڑھ جائے گی اور اس کے حوالے سے بےبنیاد شکوک و شبہات کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ پاکستان اور چین کی سفارتی تاریخ میں، جس کی اس برس 70ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے، سب سے بڑا سنگِ میل جو حاصل کیا گیا وہ سی پیک کا معاہدہ ہے۔ سی پیک کا معاہدہ کرتے ہوئے اس وقت کی پاکستانی قیادت یہ جان چکی تھی کہ اگر چین کے ساتھ مل کر معاشی استحکام حاصل کرنے کی طرف نہ بڑھا گیا تو قومی سلامتی پر اس کمزور معاشی صورتحال کی وجہ سے زد پڑ سکتی ہے۔

پاک چین سفارتی تعلقات کے ستر برس مکمل ہونے اور کمیونسٹ پارٹی چین کی سوویں سالگرہ کے موقع پر صدر شی نے دنیا بھر میں وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔ پاکستان میں خطاب سننے کے مدعوئین میں، مَیں بھی شامل تھا جبکہ اس کے علاوہ راقم الحروف نے ایک مذاکرے کا اہتمام بھی کیا تھا کہ جس میں چینی قونصل جنرل اور دیگر چیزیں سفارتکاروں نے شرکت کی جبکہ پرو وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر سلیم، ڈاکٹر امجد مگسی، ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر ،خالد جرار، عدنان خان کاکڑ اور یاسر حبیب خان سمیت دیگر احباب نے شرکت کی۔ اِس مذاکرے کا اہتمام کرتے ہوئے اِس امر کا خیال رکھا گیا تھا کہ اس میں صرف صاحبانِ علم شامل ہوں تاکہ اس کا رنگ خالصتاً علمی ہو اور بامقصد اور بامعنی گفتگو کی جا سکے۔ پاکستانی اہلِ علم یہ گفتگو کرتے رہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات زیادہ سے زیادہ گہرے ہونے چاہئیں اور اگر کسی معاملے میں سست روی آ بھی چکی ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ جو فریق اب زیادہ مستعد ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ وہ چین ہی ہے، اس کو اور زیادہ مستعدی دکھانی چاہئے تاکہ کسی قسم کی دیر سویر سے ہونے والے نقصان کا ازالہ ممکن ہو سکے اور مستقبل میں اس دیر کا مظاہرہ نہ ہو۔ راقم الحروف نے اپنی گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات صرف زبانی کلامی حد تک سمندر سے گہرے اور ہمالیہ سے اونچے نہیں ہیں بلکہ حقیقی طور پر بھی صورتحال ایسی ہی ہے۔ چین اپنی جانب سے اتنی ہی سرگرمی سے سی پیک کو کامیاب بنانے کے لئے مستعد ہے جتنا وہ روز اول سے تھا اور اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ وہ گوادر فری زون فیز2 کی جانب بڑھ گیا ہے جس سے پورے خطے میں کاروباری سرگرمیاں اور ملازمتوں کے وسیع مواقع میسر آئیں گے۔ گوادر فری زون فیز1 کا سنگِ بنیاد 2016میں رکھا گیا تھا جبکہ تیز رفتاری سے اس کو جنوری 2018تک مکمل کر لیا گیا۔ قابلِ تشویش بات یہ ہے کہ ساڑھے تین سال بعد دوسرے فیز2 کا مرحلہ شروع ہوا ہے لیکن اگر کام کی رفتار کو جو فیز1 کے وقت تھی، ایک ماڈل کے طور پر سامنے رکھا جائے تو ایسی صورت میں اس دیر کا ازالہ ممکن ہے۔ اسی طرح گوادر ایکسپو سینٹر سے بھی کاروباری سرگرمیوں کو ایک عروج حاصل ہوگا۔ دیگر اہم ترین منصوبوں میں سے گوادر اینیمل ویکسین پلانٹ کو بلوچستان کی دیہی زندگی میں غیرمعمولی اہمیت حاصل ہوگی کیونکہ بلوچستان کے دیہی علاقے یا خانہ بدوش طرز زندگی رکھنے والے افراد کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن ان کے مویشی ہیں، جب ان کو اپنے مویشیوں کے لئے ویکسین کی سہولت دستیاب ہوگی تو اس سے ان کی معاشی زندگی پر غیرمعمولی مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور براہِ راست فائدہ پہنچنے سے بھی شہریوں کے دلوں میں کسی منصوبے کے حوالے سے کوئی پریشانی بھی ہوگی تو وہ رفع ہو جائے گی۔

حنان ایگریکلچرل انڈسٹریل پارک بھی اسی نوعیت کا منصوبہ ہے جو بلوچستان کے شہریوں کی زندگی پر بھی براہِ راست اثرانداز ہوگا بلکہ اس کے مثبت اثرات پاکستان کی مجموعی زرعی معیشت پر بھی غیرمعمولی طور پر اثر انداز ہوں گے۔ ہینگمی لبریکنٹ پلانٹ بھی ایک ایسی ہی مثال ہیں۔ اس کے علاوہ جن ایم او یوز پر دستخط کیے گئے ہیں ان میں 1.2ملین گیلن پانی کو صاف کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہیں جو کہ بہت قابلِ قدر ہوگا جبکہ جنوبی بلوچستان کے لئے سولر جنریٹر بھی چین فراہم کرے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی طرف سے اس سست روی کے رویے کو فوری طور پر ترک کرنا چاہئے کیونکہ ہمارا دوست ابھی تک بہت مستعد ہے۔

تازہ ترین