• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے سوات میں پی ڈی ایم کی جانب سے منادی کرادی گئی کہ امریکہ دم دباکربھاگ چلاہے اور افغانستان کے 80فیصد سے زائد حصے پر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے (اس کے بعدفتوحات کی جو مسلسل خبریں آرہی ہیں تو بنا بریں یہ قبضہ سو فیصد تک جا پہنچا ہوگا! خیر) یہ نقارہ بجاتے ہوئے جہاں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانافضل الرحمٰن صاحب کا فخر وانبساط دیدنی تھاوہاںپی ڈی ایم یعنی پاکستان جمہوری تحریک کے دیگر راہ نماؤں کا اثبات اس امر کی طرف اشارہ تھاکہ جیسے وہ بھی تن من دھن سے پاکستان میں بھی طالبان جیسا نظام ہی چاہتے ہیں لیکن اپنی تحریک کو بادل نخواستہ جمہوریت سے جوڑ رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ کا اس تحریک میں شامل دیگر ہیوی ویٹ راہ نماؤں کی موجودگی میں فتح کا یہ اعلان پوری پی ڈی ایم ہی کا موقف تصور ہوگا، خاص کرجب بعدازاں اس کی تردید یا وضاحت بھی کسی راہ نمایا جماعت کی طرف سے نہ کی گئی ہو۔پی ڈی ایم چونکہ اب ہواکے رُخ کے تابع لگتی ہے اس لئے پورے ملک میں جو ہوا’’چلانے‘‘کی کوشش کی جارہی ہے وہ اس سے لطف اندوز ہوئے بغیر کیسے رہ سکتی ہے؟ پورے ملک کی یہ کیفیت ہے، میڈیا پر جشن بپا ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ یہ وہ انقلاب ہے جو افغانستان کے بعد پیارے پاکستان کی بھی قسمت بدلنے کیلئے وقوع پذیر ہوا چاہتا ہے۔ اس خیرہ کن اور رشکِ عالم تغیر پر کچھ کہے بغیر کیوں نہ اُن کے جشن میں خود کو شامل کر لیا جائے جو بڑی بےصبری سے 20سال سے کسی ایسے موقع کا انتظار کر رہے تھے کہ امریکہ جائے اور افغانستان طالبان کے نظام کے زیر سایہ آجائے۔ دلچسپ امر یہ ہےکہ ایسے عناصر نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کےخاتمے کے بعد نہ صرف یہ کہ چپ سادھ لی تھی بلکہ اُس پرویز مشرف کو 17ویں آئینی ترمیم کے ذریعے بلاشرکت غیر مختارکل بنایا جنہوں نے نہ صرف ملک میں روشن خیالی کا نعرہ بلندکیا بلکہ طالبان کیخلا ف امریکیوں کو پاکستان میں فوجی اڈے دیے، فوجی اڈے دینے کا یہ واقعہ کوئی انوکھا نہیں تھااس سے قبل ان کے پیش رو ایک اور جنرل ایوب خان بھی روس کیخلاف امریکہ کو اڈے دینے کا قابل فخر کارنامہ سرانجام دے چکے تھے۔ آج کا واقعہ ملاحظہ کریں کہ نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر اسلامی نظام کا نعرہ لگانے والی جماعتیں چینی کمیونسٹ نظام کی خوبیاں گنوانے کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے کوشاں ہیں۔ خیر دیگر معاملات کی طرح اس حوالے سے بھی ٹھوس جواز موجود ہے کہ اسلام نے پڑوسیوں کےحقوق کا بطورِخاص ذکرکیاہے۔اسی حوالے سے ہمیں بخاری و مسلم شریف کی ایک حدیث مبارک یادآئی ۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کوئی شخص اُس وقت تک مومن ہو ہی نہیں سکتاجب تک وہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہی نہ چاہے جو اپنے لئے چاہتاہے‘‘، اب اس حدیث کی روشنی میں واضح ہے کہ یہ لوگ اپنے لئے طالبان جیسا نظام پسند کرتے ہیں جبھی تو اپنے افغان بھائی یعنی افغانستان کیلئے بھی اس نظام کو پسند کرتے ہوئے گلِ خنداں ہیں۔ اس دوران ایک خبر نظر سے گزری جس میں کہا گیا ہے کہ ’’طالبان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی سے پشاور میں برقعوں کی مانگ میں اضافہ ہو گیا ہے، خواتین کے پردے کیلئے استعمال ہونے والے شٹل کاک برقعوں کی بڑی تعداد کارگو سروس کے ذریعے افغانستان بھیجی جارہی ہے‘‘۔ اب اس خبر میں اگر صداقت ہے توپھر پاکستانی بھی اس کیلئے تیاری شروع کر دیں۔ طالبان کا ایسا ہی نظام اگر متوقع ہے جو ماضی میں تھا، تو ظاہر ہے کہ اس کا اندازہ پاکستان میں اُن کے حمایتی عناصر کو بھی ہوگا اور وہ من جملہ تمام خصائل طالبان کے نظام کا استقبال کررہے ہیں تو پھر وہ بلاریب و تشکیک ایسا سب کچھ پاکستان کیلئے بھی چاہیں گے۔ متذکرہ حدیث کا واضح پیغام از بس یہی ہے کہ دوسروں کیلئے بھی وہی چاہو جوا پنے لئے چاہتے ہو۔ ان تمام باتوں کے باوجود خوش فہمی پر پابندی نہیں، مگر افغانستان کی صورتحال کا لامحالہ اثر پاکستان پر ہوگا، کہا جا رہا ہے کہ مہاجرین کیلئے کیمپ بن رہے ہیں، تاہم ماضی کی طرح پاکستان کو مہاجرین کے نام پر اربوں ڈالرز ملنے کے امکانات معدوم ہیں، ماضی میں مہاجرین ہیروئن و کلاشنکوف کلچر سمیت متعدد بدعتیں ساتھ لائے، اب بھارتی دلچسپی بھی ہے، خدا کرے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ایران میں جو مذاکرات ہوئے ہیں وہ پائیدار امن کا پیش خیمہ ثابت ہوں، بصورت دیگر شاعرکا کہنا یہ ہے:

عزیزو آئو اب اک الوداعی جشن کر لیں

کہ اس کے بعد اک لمبا سفر افسوس کا ہے

تازہ ترین