٭وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں ایک بار پھر سندھ سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر خزانہ کو دوبارہ ’’اہم سرکاری منصب‘‘ ملنے کے حوالہ سے کئی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی وجہ سے مذکورہ ٹیکنوکریٹ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے ۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وزارتِ خزانہ سے فراغت کے فوری بعد وہ امریکہ میں ایک بڑے مالیاتی ادارے میں اعلیٰ عہدہ پر فائز ہوگئے تھے۔
’’کپتان‘‘ کی حکومت میں بھی انہیں خصوصی طور پر بلایا گیا تھا اور وزارتِ خزانہ کی اہم ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس دفعہ وزارت سے فراغت کے بعد وہ ابھی تک کراچی میں مقیم ہیں ۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات یا امریکہ جانے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن ’’مقتدر حلقوں‘‘ کی طرف سے روکنے کی وجہ سے وہ بیرون ملک نہیں گئے حالانکہ انہیں وہاں پر اعلیٰ عہدوں کی آفر کی گئی تھی۔اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ انہیں دوبارہ اہم عہدہ دینے کے لئے تھوڑے وقت تک انتظار کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے ؟
آزاد کشمیر کا وزیر اعظم کون؟
٭وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں آزاد کشمیر میں وزارتِ عظمیٰ کے حکومتی امیدوار کے حوالہ سے کئی خبریں گردش کر رہی ہیں۔یار لوگوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ حکومتی امیدوار کو صرف اور صرف بڑے دولتمند گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے اس منصب کے لئے زیر غور لایا جا رہا ہے ۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے رہنمائوں کا خیال تھا کہ ان میں سے کسی کو اس عہدہ کے لئے امیدوار بنانے کا فیصلہ ہو گا لیکن ان کو اس بات پر خاصی حیرانگی ہوئی جب یہ معلوم ہوا کہ اسلام آباد کے امیر کبیر خاندان کے چشم وچراغ کی اس ’’بڑے عہدے‘‘ کے لئے لاٹری نکلنے والی ہے۔
یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ مذکورہ خاندان کا ایک بھائی پنجاب میں صوبائی مشیر کا عہدہ بھی رکھتا ہے اور اس خاندان کی وفاقی دارالحکومت میں بڑی جائیدادیں اور جدید پلازے ہیں۔ چیمبر آف کامرس کا بڑا عہدہ بھی مذکورہ خاندان کے پاس ہے اور وہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں دولت بھی دونوں ہاتھوں سے لگا رہے ہیں۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ حاصل کرنے کے لئے وہ دولت کے ذریعے وفاداریاں بھی تبدیل کروا رہے ہیں؟
ڈیپوٹیشن افسران کی واپسی
٭صوبائی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں ’’ڈیپوٹیشن‘‘ پر آنے والے افسران کی واپسی کے حوالہ سے کئی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ ریلوے، پوسٹل اور سیکرٹریٹ سروس کے ’’ڈیپوٹیشن‘‘ پر آئے ہوئے بیشتر سفارشی افسران کی ان کے محکموں میں واپسی کی فہرستیں مرتب کر لی گئی ہیں۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ صوبے میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر براجمان یہ افسران کسی صورت بھی ان ’’پرکشش عہدوں‘‘ سے جانے کے لئے کبھی بھی تیار نہیں ہوتے اور اپنی ’’میعاد مدت‘‘ کے مکمل ہونے سے قبل ہی بڑی بڑی سفارشوں سے اس میں توسیع کے احکامات حاصل کر لیتے ہیں۔
یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ بعض خواتین افسران بھی ان عہدوں پر اپنی توسیع کے احکامات کروانے کےلئے تگ ودو کر رہی ہیں ۔چیف سیکرٹری پنجاب کی طرف سے بنائی جانے والی کمیٹی اس سلسلہ میں حتمی مراحل طے کر چکی ہے۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ’’طاقتور ہاتھوں‘‘ کی وجہ سے مذکورہ افسران کی واپسی کا معاملہ ابھی تک مشکل دکھائی دے رہا ہے ؟