پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوںپارٹیوں میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے اب پھر ایک دوسرے پر الزامات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے درحقیقت دونوں جماعتوں کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دونوں جماعتوں کے کارکن ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ پیپلز پارٹی کو اس مفاہمتی پالیسی کا سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ کئی جانثار جیالے پارٹی چھوڑ کر چلے گئے اور ان کی جگہ مالدار لوگوں نے لے لی اور پارٹی جیالہ سسٹم تباہ ہو کر رہ گیا۔ بلاول بھٹو اور مسلم لیگی لیڈر ایک دوسرے تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں اور حکومت تماشہ دیکھ رہی ہے اور بلا خوف و خطر اپنی مدت پوری کر رہی ہے۔
بلاول بھٹو نے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ دیگر جماعتوں کے ساتھ لیکر بجٹ منظور نہیں ہونے دیں گے اور انہوں نے اپنے ارکان اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی جھولی میں ڈال دیئے مگر اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف سمیت مسلم لیگ (ن) کے 20 ارکان ہی اسمبلی سے غائب رہے۔ بلاول بھٹو اس صورتحال پر سیخ پا ہوگئے اور انہوں نے مسلم لیگ (ن) والوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا درحقیقت بلاول بھٹو یہ بات فراموش کر گئے کہ اسٹیبلشمنٹ کسی صورت بجٹ نامنظور نہیں ہونے دے گی دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو ملک میں الیکشن کی کوئی جلدی نہیں کیونکہ ان کے مرکزی لیڈر میاں نواز شریف باہر ہیں میاں شہباز شریف حمزہ شہباز شریف مریم نواز مقدمات میں جکڑے ہوئے ہیں کیا وہ شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ (ن) الیکشن لڑے۔
یہ بات بھی عیاں ہے کہ میاں نواز شریف فیملی اور میاں شہباز شریف فیملی اختلافات کا شکار ہے یعنی میاں شہباز شریف اور مریم نواز دو واضح گروپوں میں تقسیم ہیں اور اختلافات کا شکار ہیں اور اس کا فائدہ عمران حکومت کو پہنچ رہا ہے اور یہ بھی طے ہے کہ حکومت 5 سال پورے کریگی اور وزیراعظم عوام کسانوں کی فلاح وبہبود کیلئے جو منصوبے تیزی سے شروع کر رہے ہیں ان کا فائدہ لوگوں کو ڈیڑھ دو سال میں پہنچنا شروع ہو جائے گا۔
حکومت نے مشکل ترین حالات پر قابو پا لیا ہے اورمعیشت سیدھے راستے پر چل پڑی ہے زرمبادلہ کے ذخائر میں زبردست اضافہ ہوا ہے ٹیکس ریکوری تاریخی ہے اور اب جو اقدامات حکومت کر رہی ہے اس کے تحت کوئی بھی پاکستانی ٹیکس نیٹ ورک سے باہر نہیں ہوگا۔ اور توقع ہے کہ ٹیکس ریکوری پہلے سے زیادہ ہوگی۔ دو ڈیموں کی تعمیر پر کام شرو ع ہوگیا ہے نوجوانوں کسانوں کیلئے آسان شرائط پر قرضوں کا اجراء شامل ہے ان حالات میں مولانا فضل الرحمان صاحب نے پی ڈی ایم کو زندہ رکھنے کیلئے جلسے شروع کئے ہیں مگر ان جلسوں سے حکومت کی صحت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کو اڈے نہ دینے کا جو دو ٹوک اور دلیرانہ جواب دیا ہے اس نے عوام کے دل جیت لئے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو شہید کے بعد یہ دوسرا حکمران ہے جس نے امریکہ کو صاف اور کھرا جواب دیا ہے اور افغانستان سے امریکی فوجیں نکل جاتی تو پاکستان کی فوج وہاں لڑے۔ عمران خان امریکہ کی کوئی بات ماننے سے صاف انکار امریکی میڈیا اور امریکی تھنک ٹینک دم بخود رہ گئے ہیں۔ وزیراعظم کے اس واضح اعلان کے بعد امریکی وزیر خارجہ بلنیکس نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ٹیلی فون پر بات کی اور طالبان کو کنٹرول کرنے کی استدعا کی۔ وزیر خارجہ نے واضح کہا کہ ہم طالبان لڈر شپ سے بات کریں گے۔
امریکہ نے افغانستان سے بھونڈے طریقے سے جلدی میں انخلاء کیا ہے چین نے بھی امریکی فوجوں کے انخلاء پر شدید ردعمل کا اظہار کیا کہ افغانستان میں بگڑتی صورتحال کا مجرم امریکہ ہے اور پورے خطے کو لپیٹ میں لینا چاہتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی میجر جنرل افتخار بابر نے بھی کہا ہے کہ امریکہ کو اپنی فوجوں کے انخلاء میں اتنی جلدی نہیں کرنا چاہئے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ امریکہ کو اڈے دینے اور دوسرے تعلقات کے حوالے سے حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔اس وقت پاکستان چین روس ایران اور ترکی کا بلاک بن رہا ہے مگر افغانستان کی صورتحال انتہائی خطرناک ہوتی جارہی ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے تو اعلان کیا ہے کہ حکومت فوج اور ادارے صورتحال کے حوالے سے الرٹ ہیں طالبان بلا روک ٹوک کابل کی طرف گامزن ہیں افغانستان کے سینکڑوں فوجی ایران اور دوسرے پڑوسی ممالک میں بھاگ گئے ہیں امریکیوں نے افغانستان میں جو ایئر بیس رات گئے اندھیرے میں خالی کیا ہے وہاں وہ جدید ترین آلات تو اپنے ساتھ لے گئے ۔ باقی سارا کچھ توڑ پھوڑ گئے تاکہ طالبان کے ہاتھ کچھ نہ لگے۔
طالبان جب پورے ملک میں کنٹرول سنبھال لیں گے تو ان کے مخالفین بھاگیں گے پاکستان نے ان حالات سے نمٹنے کیلئے اپنی سرحد بند کر رکھی ہے مگر جب لوگ طورخم بارڈر پر اکٹھے ہوں گے تو انہوں نے زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی تو کیا انہیں حکومت سختی سے روکے گی۔ اگر کچھ افراد مارے گئے تو عالمی سطح پر پروپیگنڈہ ہوگا ویسے سول حکومت اور فوج نے حکمت عملی طے کر رکھی ہے صورتحال کے بارے میں پوری پارلیمنٹ کو بریفنگ دے کر اعتماد میں لیا گیا اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف بلاول بھٹو اور دیگر پارلیمانی لیڈروں نے بریفنگ پر اعتماد اور اطمینان کیا۔ ویسے طالبان کی طرف سے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کی وجہ سے بھارت کو زبردست دھچکا لگے گا کیونکہ بھارت نے اربوں ڈالر خرچ کئے ہیں افغانستان میں اور وہاں اپنے پالتو لوگوں سے پاکستان میں دہشت گردی کراتا ہے۔بلاول بھٹو زرداری امریکہ کے دو ہفتے کے دورے پر امریکہ پہنچ گئے ہیں۔
آصف علی زرداری بلاول بھٹو کے جو بائیڈن حکومت کے ساتھ اچھے مراسم رہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بلاول بھٹو کو ایسے موقع پر امریکہ نہیں جانا چاہئے تھا کیونکہ پاکستان کے ساتھ جوبائیڈن انتظامیہ کے ساتھ اڈے نہ دینے کی وجہ سے اچھے تعلقات نہیں عوام میں بھی کوئی اچھا تاثر نہیں گیا۔ حکومتی ترجمانوںنے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بلاول بھٹو امریکی انتظامیہ کو یہ باور کرانے گئے ہیں کہ آپ ایک دفعہ ہمیں اقتدار میں لائیں ہم آپ کے سب کام کریں گے مگر اس وقت امریکہ کسی کو اقتدار میں لانے کی پوزیشن میں نہیں۔ ادھر پیپلز پارٹی والوں کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو امریکہ میں قیام کے دوران امریکی سینیٹروں اور پاکستانیوں سے ملاقاتیں آزاد کشمیر میں عام انتخابات کا انعقاد آخری مرحلے میں ہے۔
ان انتخابات میں تحریک انصاف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) حصہ لے رہی ہیں۔ کافی دفعہ اقتدار میں رہنے والی جماعت مسلم کانفرنس شاید دو تین سیٹوں میں لڑ رہی ہے مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار قیوم خان مرحوم تھے جن کا نہ صرف کشمیر بلکہ پاکستان کی سیاست میں بھی ان کا خاصہ عمل دخل تھا۔ تحریک انصاف نے بعض حلقوں میں مضبوط امیدواروں کی جگہ کمزور امیدوار میدان میں اتارے، کارکن ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں دیکھیں کیا نتائج ہوتے ہیں۔