• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گوادر کی زمینوں کی الاٹمنٹ غیر قانونی، کمیٹی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، بلوچستان ہائی کورٹ

کوئٹہ(نمائندہ جنگ)بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل اور محمد کامران ملاخیل پر مشتمل بینچ نے گوادر کی اراضیات کی 2005 میں نیب کے زیر نگرانی قائم کمیٹی کی سفارش پر اس وقت کے وزیراعلیٰ کی ہدایت پر مختلف افراد اور نجی اداروں کو کی گئی الاٹمنٹ کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ معزز عدالت نے گوادر کی زمینوں کی الاٹمنٹ سے متعلق کیس پر فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ بلوچستان میں لینڈ لیز پالیسی 2000کے علاوہ ایسا کوئی قانون نہیں جو وزیراعلیٰ اور بورڈ آف ریونیو سمیت کسی بھی ادارے یا شخص کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی نجی ادارے یا شخص کو سرکاری اراضی لیز یا ملکیت کی بنیاد پر الاٹ کرسکیں، فیصلے کے مطابق چونکہ تمام الاٹمنٹ لینڈ لیز پالیسی کے منافی ہیں اس لئے ان الاٹمنٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، واضح رہے کہ اس وقت کی صوبائی حکومت نے ان اراضیات کی الاٹمنٹ سے متعلق امور کے جائزہ اور سفارشات کی تیاری کے لئے نیب کی زیر نگرانی کمیٹی قائم کی تھی جس نے صوبائی حکومت کو اراضیات کی الاٹمنٹ کا اختیار دیا تھا ۔عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ نیب کی زیر نگرانی اس وقت کی قائم کردہ کمیٹی کی نہ تو کوئی قانونی حیثیت تھی اور نہ ہی اسے کوئی اختیار تھا۔ عدالت نے کمیٹی کی سفارش پروزیراعلیٰ کی ہدایت پر سنئیر ممبر بورڈ آف ریونیو کی جانب سے کی گئ الاٹمنٹ کو غیر قانونی اور اختیارات سے تجاوز قرار دیا ہے، حکومت کی بجاۓ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر درخواست گزاروں کو اراضی الاٹ کی گئی۔ عدالتی فیصلے کے مطابق حکومت سے مراد صوبائی کابینہ ہے لیکن تمام الاٹمنٹ کابینہ کی منظوری کے بغیر کی گئی جو کمیٹی کی سفارشات کے بھی برعکس ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس سے قبل بھی انہی اراضیات سے متعلق معاملہ 2006میں عدالت عالیہ بلوچستان اور عدالت عظمی کے سامنے پیش ہوا تو اسوقت بھی یہ قرار دیا گیا تھا کہ سرکاری اراضی کی الاٹمنٹ کا اختیار نہ تو وزیراعلیٰ اور نہ ہی کسی سرکاری افسر کو حاصل ہے ۔عدالت عالیہ کے اس وقت کے فیصلے کے باوجود وہ تمام افراد جنہیں الاٹمنٹ کی گئی ۔انہوں نے خودکو اراضی کا مالک ظاہر کرتے ہوۓ بہت سی اراضی مختلف افراد کو فروخت کردیں چونکہ عدالت یہ قرار دے چکی کہ یہ الاٹمنٹ غیر قانونی ہے،واضح رہے کہ عدالت کے اس فیصلے سے اربوں روپے مالیت کی غیر قانونی طور پر الاٹ کی گئی سیکڑوں ایکڑ اراضی کی ملکیت واپس حکومت بلوچستان کو مل گئی ہے، حکومت کو چاہئے کہ اس عدالتی فیصلے کے بعد وہ ان اراضیات کو مفاد عامہ کے منصوبوں کے لئے بروئے کار لائے، اگر معاشی اور رہا ئشی سرگرمیوں کے لئے ن اراضیات کا استعمال مقصود ہو تو شفاف اوپن نیلامی کے زریعہ اراضیات کو برؤے کار لایا جائے۔ درخواست گزاروں کی جانب سے معروف قانون دان جن میں نعیم بخاری کامران مرتضی ٰعدنان بشارت شیر شاہ کاسی جب کہ حکومت کی جانب سے اے جی بلو چستان اور جی ڈی اے اور جی پی اے کی جانب سے معروف قانون دان امان اللہ کنرانی اور رحمان ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔

تازہ ترین