• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں آٹو انڈسٹری تیزی سے ترقی کرتی ہوئی صنعت ہے جس کا جی ڈی پی میں حصہ 4 فیصد ہے اور یہ صنعت 18 لاکھ لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ اس وقت ملک میں متعددآٹومینوفیکچررز کام کررہے ہیں جن کی مجموعی سرمایہ کاری 92ارب روپے یعنی 570ملین ڈالر ہے۔ ملک میں اس وقت ایک لاکھ 51ہزار گاڑیاں اور 18لاکھ سے زائد موٹر سائیکلیں مینوفیکچر ہورہی ہیں جس سے حکومت کو 50 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہورہا ہے۔ آٹو سیکٹر کی کامیاب وینڈر (Vendor) انڈسٹری، اس سیکٹر کو ایک ارب ڈالر کے عالمی معیار کے پارٹس اور دیگر لوازمات مقامی طور پر سپلائی کررہی ہے جس سے اس سیکٹر میں مجموعی ملازمتوں کی تعداد35 لاکھ سے زائد ہوجاتی ہے۔

پاکستان میں مقامی طور پر پہلی گاڑی Vauxhall اور بیڈ فورڈ ٹرک 1953ء میں نیشنل موٹرز نے تیار کیا۔ پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PAMA) کے مطابق 2011-12ء میں گاڑیوں کی مقامی سیل 157325 یونٹس تھی جو2015ء سے 2019ء کے دوران بڑھ کر 216786 تک پہنچ گئی تھی۔ 2019-20ء میں کورونا کے باعث یہ سیل کم ہوکر 96455 یونٹس تک گرگئی لیکن گزشتہ سال 2020-21ء میں دوبارہ بڑھنے سے151182 یونٹس تک پہنچ گئی ہے جس میں گاڑیوں کی سیل میں 20 فیصد، بسوں کی سیل میں 17 فیصد، جیپ میں 23 فیصد، پک اپ میں 57 فیصد، ٹریکٹرز میں 55 فیصد اور موٹر بائیک کی سیل میں 39 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے نئی آٹو پالیسی میں مقامی طور پر گاڑیوں کی پیداوار بڑھاکر 3 لاکھ سالانہ کرنے کا ہدف مقرر کیاہے۔ بھارت اور دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں گاڑیاں مہنگی ہونے کی وجہ چند بڑے کار مینوفیکچررز کی اجارہ داری ہے جنہوں نے پاکستان میں جاپانی گاڑیوں کے علاوہ دنیا کے دیگر برانڈز کی مینوفیکچرنگ کی حوصلہ شکنی کی اور طلب بڑھنے کے باوجود اپنی گاڑیوں کی پیداوار میں اضافہ نہ کیا جس سے مارکیٹ میں گاڑیوں کی ڈلیوری 6 سے 9 مہینے تک پہنچ گئی۔ اِس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سرمایہ کاروں نے اپنی بک کرائی گئی گاڑیوں پر 9سے 12لاکھ روپے تک کا اضافی پریمیم (Own Money) وصول کرنا شروع کردیا۔ آٹو سیکٹر میں سٹے بازی اور گاڑیوں کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ دیکھتے ہوئے حکومت نے حال ہی میں 5 سالہ نئی آٹو پالیسی2021-26ء کا اعلان کیا ہے اور 1000سی سی گاڑیوں پر عائدفیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کردی ہے جبکہ 1000 سی سی سے بڑی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 50 فیصدکمی کی گئی ہے جس سے 1000 سی سی ماڈلز کی گاڑیوں کی خریداری پر ڈیڑھ سے ڈھائی لاکھ روپے کی کمی آئے گی اور اخبارات میں اب مقامی کارمینوفیکچررز کی جانب سے گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کے اشتہارات شائع ہورہے ہیں۔ نئی آٹو پالیسی میں موٹر سائیکلوں کی پیداوار کا ہدف بھی 26 لاکھ سے بڑھاکر 30 لاکھ سالانہ مقرر کیا گیا ہے جس سے تقریباً 4 لاکھ نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔

گاڑیوں پر اضافی پریمیم کی سٹے بازی روکنے کیلئے نئی آٹو پالیسی میں اگر اصل خریدار کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے نام گاڑی رجسٹرڈ کرائی جائے گی تو گاڑی فروخت کرنے والے کو ٹیکس کی مد میں 50 ہزار سے 2 لاکھ روپے ادا کرنا ہوں گے۔ اِسی طرح گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں خریدار کو 60 دن کے اندر گاڑی کی ڈلیوری کرنے کی پابند ہوں گی بصورت دیگر تاخیر پر اُنہیں 10.5 فیصد کے حساب سے مارک اپ ادا کرنا پڑے گا۔ اس سے قبل گاڑی بنانے والی کمپنیاں بکنگ پر 100 فیصد ایڈوانس رقم وصول کرتی تھیں اور خریدار کو پوری رقم ادا کرنے کے باوجود 6 سے 9مہینے تک گاڑی کی ڈلیوری کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ نئی آٹو پالیسی کے تحت مقامی کار مینوفیکچررز کمپنیاں اب بکنگ کے وقت خریدار سے 20 فیصد سے زیادہ ایڈوانس وصول نہیں کرسکیں گی اور خریدار کو آن لائن گاڑی کی مختلف مراحل میں تیاری سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کی پابند ہوں گی۔ ہمارے ملک میں آٹومینوفیکچررز نے مقامی طور پر تیار کی گئی گاڑیوں کو خطے میں ایکسپورٹ کرنے کی کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔ 2019ء میں، میں ایف پی سی سی آئی کا وفد مراکش لے کر گیا تھا جہاں تنجیر پورٹ کے فری زون میں تیار کی جانے والی فرانسیسی گاڑیاں رینولٹ، پیچو اور سٹرون بحری جہازوں میں لوڈ ہوکر یورپ جارہی تھیں ، اس زون سے 8 ارب ڈالر سالانہ کی ایکسپورٹ ہورہی ہے۔ نئی آٹو پالیسی کے مطابق مقامی کار مینوفیکچررز کو اپنی مجموعی امپورٹ کا 10 فیصد ایکسپورٹ کرنا ہوگا۔ میری پاکستان انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ (EDB) سے درخواست ہے کہ مقامی کارمینوفیکچررز کے Delition پروگرام پر عملدرآمد یقینی بنائیں تاکہ گاڑیوں کے انجن امپورٹ کرنے کی بجائے مکمل گاڑیاں پاکستان میں تیار کی جاسکیں۔

حکومت نے آٹو پالیسی میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں EVs اور E-Bikes پر کسٹم ڈیوٹی میں کمی اور دیگر مراعات کا اعلان کیا ہے تاکہ فرنس آئل پر گاڑیوں کا انحصار کم ہوسکے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ حکومت نے ’’نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم‘‘ کے تحت سستے مکانات کی طرح عوام کیلئے سستی ’’میری گاڑی اسکیم‘‘ بھی متعارف کرائی ہے۔ میری تجویز ہے کہ اِس اسکیم میں گاڑی کی قیمت 9 لاکھ 99 ہزار سے زائد نہ ہو اور مارگیج فنانسنگ کی طرح بینکوں سے سستی آٹو فنانسنگ کا اعلان کیا جائے تاکہ متوسط طبقہ بھی اس اسکیم سے مستفید ہوسکے۔

تازہ ترین