اسلام آباد (عمر چیمہ) پاکستان انفارمیشن کمیشن نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ کو ہدایت کی ہے کہ درخواست گزار کو وہ معلومات فراہم کی جائیں جو اس نے معلومات تک رسائی کے حق کے قانون کے تحت طلب کی ہیں۔
کمیشن نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ شہریوں کے حقوق کو اس بنیاد پر مسترد کیا جائے کہ اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوگی تو دوسرے ادارے بھی یہی بنیاد بنا کر معلومات دینے سے انکار کر دیں گے۔ کمیشن نے یہ مفصل فیصلہ 22؍ جولائی کو سنایا ہے۔
مختار احمد نامی ایک شہری اور آر ٹی آئی کے سرگرم کارکن نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو 2019ء کے مہینے اپریل میں درخواست دی تھی کہ سپریم کورٹ میں مختلف عہدوں پر بھرتی کے حوالے سے معلومات فراہم کی جائیں۔ اُس وقت سے لیکر اب تک درخواست گزار معلومات کے حصول کا منتظر تھا۔ درخواست گزار نے مطالبہ کیا تھا کہ اسے بتایا جائے کہ ملازمین کی منظور شدہ تعداد، خالی اسامیوں کی تعداد، ریگولر اور کنٹریکٹ اسٹاف کی بھرتی، جنوری 2017ء سے لیکر اب تک تخلیق کی گئی اسامیوں، خواتین اسٹاف، معذور ملازمین اور خواجہ سرا ملازمین کے متعلق مکمل معلومات فراہم کی جائیں۔ درخواست گزار نے بعد میں کمیشن سے رجوع کیا جس نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو کچھ نوٹسز جاری کیے۔
دوسرے نوٹس پر انہوں نے وہ خط کمیشن کو بھیجا جو سپریم کورٹ نے سینیٹ اور قومی اسمبلی کو 2014ء میں بھیجا تھا۔
اس خط میں پارلیمنٹ کو یاد دہانی کرائی گئی تھی کہ عدلیہ ایگزیکٹو سے الگ ہے اور آئین میں ایسا کوئی ادارہ یا طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا جس کے تحت عدالتوں کے کام کاج کی نگرانی کی جا سکے۔ ساتھ میں یہ بھی سپریم کورٹ نے حکومت سندھ بنام شرف فریدی کیس (پی ایل ڈی 1994 ایس سی 105) میں اختیارات کے علیحدہ ہونے کا حوالہ بھی پیش کیا تھا۔ درخواست گزار مختار سپریم کورٹ کے جواب سے مطمئن نہ تھا۔
اس کا کہنا تھا کہ جو اس نے سوال اٹھایا تھا اس کا جواب خط میں موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس کیس کا حوالہ خط میں دیا گیا ہے اس میں اختیارات کی علیحدگی کا ذکر تو ہے لیکن اس میں شہریوں کو معلومات کی فراہمی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی۔
یہ بھی کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلہ 2010ء میں آئین میں آرٹیکل 19 اے آئینی ترمیم کے ذریعے شامل کرنے اور بعد میں 2017ء میں رائٹ ٹوُ انفارمیشن ایکٹ منظور ہونے سے قبل سنایا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کے خط کے جواب میں درخواست گزار کا موقف تھا کہ عدلیہ کی آزادی کی ضمانت آئین نے دی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ عدلیہ کا احتساب نہیں ہو سکتا اور وہ شہریوں کو جوابدہ نہیں کیونکہ یہ شہری ہی ہیں جنہوں نے یہ تمام ادارے قانون سازی کے ذریعے اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے تخلیق کیے ہیں۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ عدلیہ اپنی آزادی سے لطف اندوز ہو سکتی ہے لیکن مکمل آزاد ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی کیونکہ یہ بھی حکومت کا حصہ ہے جس میں ایگزیکٹو، عدلیہ، قانون ساز ادارہ شامل ہیں اور یہ عوامی نگرانی کو مسترد نہیں کر سکتی خصوصاً اس وقت جب بات عوام کے فنڈز کے استعمال کرنے کی آتی ہے۔
رائٹ ٹوُ انفارمیشن کمیشن نے درخواست گزار کے موقف سے اتفاق کیا اور کہا کہ قانون کسی کو کھلی چھوٹ نہیں دیتا اور حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ سیکشن 2 (xi) (e) کے تحت عوامی ادارہ ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’وفاقی قانون کے تحت کوئی بھی عدالت، ٹریبونل، کمیشن یا بورڈ‘‘۔ کمیشن نے درخواست گزار کے اس موقف سے بھی اتفاق کیا کہ عدلیہ کی آزادی اور ایگزیکٹو سے علیحدہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ شہریوں کو جوابدہ نہیں۔
اپنے فیصلے میں کمیشن نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو حکم دیا ہے کہ درخواست گزار کو 20؍ روز کے اندر اس کی مطلوبہ معلومات فراہم کی جائیں اور ایکٹ کے سیکشن 9؍ کے تحت سپریم کورٹ کے پبلک انفارمیشن افسر کو کہا جائے کہ وہ اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کرے اور ویب سائٹ پر ہر کیٹگری کے حوالے سے معلومات فراہم کرے۔