پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بارے میں دنیا بھر میں مشہور ہے کہ جس دن یہ ٹیم اپنی روایتی کرکٹ کھیل رہی ہوتی ہے اس دن وہ دنیا کی بڑی سے بڑی ٹیم کو ہراسکتی ہے اور جس دن وہ موڈ میں نہ ہو کمزور سے کمزور ٹیم سے ہار جاتی ہے اس لئے ماہرین اس ٹیم کے بارے میں رائے سے قبل محتاط رہتے ہیں۔
سابق ٹیسٹ فاسٹ بولر شعیب اختر نے ون ڈے سیریز میں شکست کے بعد کہا تھا کہ اس ٹیم میں کون سا سپر اسٹار ہے جسے لوگ دیکھنے آئیں گے۔ ٹرینٹ برج ناٹنگھم میں جب پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف پہلا ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل جیتا تو سابق کپتان اظہر علی نے نام لئے بغیر سابق فاسٹ بولر شعیب اختر کو جواب دیا اور اظہر علی نے سوشل میڈیا پر پاکستانی شائقین کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ تماشائی کس کو دیکھنے آئے تھے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے ہاتھوں تینوں ون ڈے انٹر نیشنل ہار گئی اور پھر پہلا ٹی ٹوئینٹی 31رنز سے جیت لیا۔ کاغذوں میں دیکھا جائے تو انگلش ٹیم ٹی ٹونٹی رینکنگ کی نمبر ون ٹیم ہے جبکہ پاکستان اس درجہ بندی میں چوتھی پوزیشن پرہے۔ ٹی ٹوئنٹی سیریز پاکستان کے لیے مقابلے سے زیادہ امتحان کی گھڑی بنی نظر آرہی تھی۔
پاکستانی کھلاڑیوں کو جو ذرا سی برتری یہاں حاصل ہے، وہ میچ پریکٹس کی ہے کیونکہ پی ایس ایل مکمل ہوئے ابھی زیادہ دن نہیں گزرے اور ون ڈے سیریز میں بھی ہمیں اکثر پاکستانی بیٹسمین ٹی ٹونٹی مائنڈ سیٹ میں کھیلتے نظر آئے۔ ناٹنگھم میں کھیلے گئے سیریز کے پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں پاکستان نے جارحانہ بیٹنگ کی بدولت مقررہ 20 اوورز میں 6 وکٹ کے نقصان پر 232 رنز بنائے۔
یہ پاکستان کا کسی بھی ٹی ٹوئینٹی میں سب سے زیادہ اسکور ہے، انگلش ٹیم 201 رنز پر آؤٹ ہوگئی،پاکستان کی پہلی وکٹ 150 رنز پر اس وقت گری جب محمد رضوان 8 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 63 رنز بنا کر آوٹ ہوگئے۔کپتان بابراعظم نے 49 گیندوں پر 8 چوکوں اور 3 چھکوں کی مدد سے 85 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلی اور ولی کی گیند پر بیئراسٹو کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔انگلینڈ کے لیام لیونگسٹن نے شاندار بیٹنگ کرتے ہوئے سنچری اسکور کی لیکن وہ اپنی ٹیم کو فتح نہیں دلوا سکے۔
انہوں نے 43 گیندوں پر 103 رنز بنائے جس میں 9 چھکے اور 6 چوکے شامل تھے۔ان کی سنچری اپنی ٹیم کو جیت نہ دلاسکی یہ انگلینڈ کی جانب سے ٹی توئینٹی کی تیز ترین سنچری ہے۔پاکستان کے شاداب خان اور شاہین آفریدی نے 3،3 جبکہ محمد حسنین، حارث رؤف اور عماد وسیم نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی شاہین شاہ آفریدی کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ انگلینڈ کے ہاتھوں دن ڈے سیریز میں شکست کے بعد ایجبسٹن برمنگھم میں شائقین ٹیم سے ناراض تھے اور مصباح الحق اور وقار یونس کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے پھر ٹرینٹ برج میں شکست کے بعد شائقین کا جشن اور جوش وخروش قابل دید تھا یہ بھی ہمارا کرکٹ کلچر ہے کہ ایک شکست کے بعدہم جذباتی ہوجاتے ہیں اور ایک جیت سے زمین آسمان ایک کردیتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ کی نمایاں ترین خصوصیت یہ ہے کہ اس کے بارے کبھی کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ یہ ٹیم کسی بھی سیاق و سباق میں کئی اندازوں کو مات دے سکتی ہے۔ اس ٹیم کے مزاج کو سمجھنا خاصا مشکل ہے، یہ ٹیم گویا ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ ون ڈے سیریز میں انگلینڈ کی کمزور ٹیم سے سیریز ہار گئے لیکن ٹی ٹوئینٹی میں پاکستان نے بازی پلٹ دی۔ اب کون کہہ سکتا ہے کہ اس بیٹنگ لائن میں دم خم نہیں جو اننگز کے آخری دس اوورز میں ڈیڑھ سو سے زیادہ رنز بنا سکتی ہے؟
جس کے مڈل اور لوئر آرڈر میں فخر زمان، صہیب مقصود اور محمد حفیظ جیسے سٹرائیک ریٹ والے بیٹسمین ہیں۔انگلینڈ کے ہاتھوں ون ڈے سیریز میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بدترین شکست کے بعد سابق کپتان شاہد خان آفریدی کا کہنا تھاکہ اس موقع پر پاکستانی کھلاڑیوں کو اپنے پرستاروں کی حمایت کی ضرورت ہے خاص طور اس وقت جب خراب کارکردگی کی وجہ سے کھلاڑیوں کے مورال میں کمی آ چکی ہو۔ اس وقت پاکستان کی قومی ٹیم بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل ہے، ان کھلاڑیوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ کچھ کھلاڑی کافی وقت سےپرفارم کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے شاندار کھلاڑی ہیں۔
شاہد آفریدی نے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا ہمیں اپنے کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھانا ہو گا اور مشکل وقت میں ایک کرکٹ پرستار کے طور پر اور سابق کھلاڑی ہونے کی حیثیت سے اپنے کھلاڑیوں کا ساتھ دینا ہو گا۔انھوں نے کہا کہ میدان میں لڑ کر ہارنے والی ٹیم کوقبول کرنا چا ئے۔ میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں حالیہ سالوں میں کرکٹ بہت تبدیل ہو چکی ہے۔ اب اٹیک ہی آپ کی دفاعی صلاحیت ہے اس کے علاوہ کامیابی نہیں ہے اور وائٹ بال فارمیٹ میں تو یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔
ہمارے کھلاڑی اٹیک کرنے اور روکنے میں اچھے ہیں،اس کے علاوہ ہمیں درمیانی راستہ پر دھیان دینا ہو گاخاص طور پر ون ڈے فارمیٹ میں اس پر توجہ دینا ہو گی۔تمام کھلاڑیوں کو اپنی پوری صلاحیت کا پورا استعمال کرنا ہوگا ۔پاکستان ٹیم کی ہر شکست کے بعد کوچنگ اسٹاف کو تبدیل کرنے کی باتیں ہوتی ہیں لیکن شائد لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم نے دو سال پہلے اچانک مکی آرتھر،گرانٹ فلاور اور اظہر محمود کو گھر بھیج دیا ، حقیقت یہ بھی ہے اس موقع پر کوئی بڑا غیر ملکی کوچ پاکستان آکر کوچنگ کرنے کو تیار نہیں ہے۔
اینڈی فلاور اور رکی پونٹنگ کی باتیں کرنے والے شائد یہ بھول گئے ہیں کہ ہم ایک کوچ کو سال میں جتنے پیسے دیتے ہیں وہ اتنے پیسے دو مہینے آئی پی ایل کی کوچنگ میں کما لیتا ہے پھر پاکستان کرکٹ ٹیم ہر وقت غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوتی ہے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق کا ون ڈے سیریز کے بعد کہنا تھا کہ حالیہ کارکردگی بطور ہیڈ کوچ میرے میرے لیے سخت تشویش کا باعث ہے، شکستوں کا صرف کھلاڑیوں یا کوچز کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، یہ ٹیم کی ناکامی ہے۔ پسند نا پسند کی باتیں پرانی ہیں ، جوکبھی ختم نہیں ہوتی ، ٹیم میںکسی کھلاڑی کو فیور نہیں دی جارہی ۔ سب سے اہم چیزڈسپلن ہے انگلینڈ نے بنیادی ڈسپلن پر ہمیں شکست دی ۔
ہر شعبہ میں ہمیں اپنے ڈسپلن کوبہتربنانا ہوگا۔اگر ایک دو میچوں میں ٹیم کی کارکردگی خراب ہوتی ہے تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ سب خراب ہورہا ہے۔ٹیم ڈیولپ ہورہی ہے اس میں سیریز جیتے بھی ہیں اور ہارتے بھی ہیں۔ہم نے پانچ چھ سیریز جیتی ہیں جو سوال پوچھنے والے صحافی کی چٹ پر لکھی ہوئی نہیں ہے۔مسلسل جیتے ہوئے آرہے ہیں اس لئے انگلینڈ کی کارکردگی مایوس کن ہے۔انگلینڈ کی سیریز اور خاص طور پر تیسرا میچ جیتنا چاہیے تھا ہم بولنگ میں اپنے پلان پر عمل درآمد نہ کرسکے۔غلطیاں ضرور کررہے ہیں لیکن یہ تاثر صیح نہیں ہے کہ دو سال میں کچھ درست ہوا ہی نہیں ہے۔
تیسرے ون ڈے میں جو ہوا، کسی طور پر اس کا دفاع نہیں کرسکتے، ہم انگلینڈ کی نئی ٹیم سے بالکل مقابلہ نہیں کرسکے، بطور ٹیم ہم ناکام رہے، انگلینڈ کیخلاف سیریز توقعات سے برعکس رہی، کھلاڑیوں کی طرح شکست کے ذمہ دار کوچز بھی ہیں۔ ہمارے کھلاڑیوں نے گذشتہ سیریز میں اچھا پرفارم کیا تھا کہیں نہ کہیں ٹیم کا مومنٹم بریک ہوا ہے اس کی وجہ تلاش کرنی ہوگی۔ جیت کے ٹریک سے اچانک ٹیم ہٹ جاتی ہے جس کی وجہ ڈھونڈنی پڑے گی، آخری چھ سیریز ہم نے جیتی ہیں شاہد لوگ وہ بھول گئے۔ بابراعظم جب سے کپتان بنا ہے اس کی کارکردگی بہترہوئی ہے۔ بابراعظم کوکپتانی کا زیادہ تجربہ نہیں لیکن وہ اس میں بہترسے بہترہوتا جارہا ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کو ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ سے قبل 12,13میچ کھیلنا ہوں گے۔متحدہ عرب امارات کی کنڈیشن میں پاکستان کی جیت کے امکانات موجود ہیں۔ آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پاکستان اوربھارت ایک ہی گروپ میں شامل ہیں۔آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے گروپس کا اعلان کردیا گیا۔ روایتی حریف پاکستان اور بھارت کو ایک ہی گروپ میں شامل کیا گیا ہے۔ آئی سی سی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ 17 اکتوبر سے شروع ہوگا۔ سپر بارہ ٹیموں کے گروپ ٹو میں پاکستان اوربھارت کے ساتھ نیوزی لینڈ اورافغانستان کی ٹیمیں بھی شریک ہیں۔ سپر12 کے گروپ ون میں آسٹریلیا، انگلینڈ، جنوبی افریقا اورویسٹ انڈیزکی ٹیمیں آمنے سامنے ہوں گی۔گروپ ون اورٹو میں مزید دو کوالیفائر ٹیمیں بھی ہوں گی۔
اس کے ساتھ راؤنڈ ون کے گروپ اے میں سری لنکا آئرلینڈ، نیدرلینڈز اور نمیبیا کھیلیں گی۔ راونڈ ون کے گروپ بی میں بنگلہ دیش، اسکاٹ لینڈ، پاپوا نیوگنی اورعمان جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ میچز عمان اور یواے ای میں کھیلے جائیں گے۔ گروپس کا انتخاب 20 مارچ 2021 کی رینکنگ کے تحت عمل میں لایا گیا ہے۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ سے قبل ایک اچھی اور متوازن ٹیم کی پاکستان کو جیت دلواسکتی ہے۔ پاکستانی ٹیم میں صلاحیت موجود ہے لیکن درست سلیکشن اور درست حکمت عملی ہی اس ٹیم کو اوپر لے جاسکتی ہے لیکن تماشائیوں اور سابق کرکٹرز کے ساتھ ساتھ ماہرین بھی اس ٹیم کی حوصلہ افزائی کریں۔تنقید ضرور کریں لیکن تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے ورنہ ایسا نہ ہو کہ ناقدین کو منہ کی کھانا پڑے۔