• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کچھ سال پہلے کی بات ہے۔ موذی مرض میں مبتلا بچوں کی آخری خواہش کی تکمیل کے ادارے میک اے وش فائونڈیشن (Make-A-Wish) جس کا میں بانی صدر ہوں، کو کینسر میں مبتلا 17 سالہ انور اللہ خان کی ملالہ یوسف زئی سے ملاقات کی منفرد خواہش موصول ہوئی۔ ڈاکٹروں کے مطابق انور ﷲ خان کا پھیپھڑوں کا کینسر ایڈوانس اسٹیج پر تھا۔ برطانیہ میں مقیم ملالہ یوسف زئی کی مصروفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس خواہش کی تکمیل کوئی آسان کام نہ تھا۔ میں نے جب اس سلسلے میں ملالہ سے برطانیہ میں رابطہ کیا اور انور ﷲ کی منفرد خواہش اور اس کی شدید علالت سے آگاہ کیا تو ملالہ نے کہا کہ ’’آپ میری مصروفیات کی فکر نہ کریں، میں اپنے شیڈول میں تبدیلی کرلوں گی، آپ بتائیں کہ انور ﷲ کو کب مجھ سے ملوانے لاسکتے ہیں؟ ‘‘

برطانوی سفارتخانے نے انور ﷲ کو ویزا جاری کرتے وقت یہ شرط عائد کی کہ وہ صرف میرے ساتھ ہی سفر کرسکتا ہے۔ اس طرح میں انور ﷲ کو اپنے ساتھ لے کر لندن روانہ ہوا۔ دوران سفر انور ﷲ کی اپنی ہیرو سے ملنے کی خوشی قابل دید تھی۔ آخرکار وہ لمحہ بھی آگیا جب انور ﷲ ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لئے ملالہ سے ملاقات کیلئے پہنچا تو اسے اپنی قسمت پر یقین نہیں آرہا تھا۔ملاقات میں ملالہ کے والد ضیاء یوسف زئی، والدہ اور چھوٹا بھائی بھی موجود تھا۔ ملالہ نے انور ﷲ کے ساتھ کئی گھنٹے گزارے اور ہم سب نے لنچ بھی ساتھ کیا۔ ملالہ نے انور ﷲ سے پاکستان کے بارے میں دریافت کیا اور کہا کہ میں پاکستان کو بہت یاد کرتی ہوں، میرا بس نہیں چلتا کہ کب پاکستان واپس لوٹوں۔ اس موقع پر ملالہ کا کہنا تھا کہ یوں تو وہ بے شمار لوگوں سے ملتی رہتی ہیں مگر انور ﷲ کی خواہش پر اس سے ہونے والی ملاقات کو وہ ہمیشہ یاد رکھیں گی۔ ملاقات کے دوران ملالہ نے ہم سب کیلئے یہ کہتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے چائے بنائی کہ آج میرا خصوصی مہمان ملاقات کیلئے آیا ہے۔دورانِ گفتگو ملالہ نے بتایا کہ وہ میک اے وش فائونڈیشن کے منفرد کام سے بہت متاثر ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنی کتاب ’’آئی ایم ملالہ‘‘ سائن کرکے پیش کی جو آج بھی میری لائبریری میں موجود ہے۔ برطانوں نشریاتی ادارے بی بی سی نے میک اے وش چائلڈ کی ملالہ سے ملاقات کو اپنی خبروں میں نمایاں جگہ دی۔ انور ﷲ کی ملالہ سے ملاقات کے بعد جب میں وطن واپس لوٹا تو مجھے افغانستان کے نمبر سے کال موصول ہوئی جس میں یہ دھمکی دی گئی کہ ’’میں ملالہ کو پروموٹ کررہا ہوں اور سنگین نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہوں۔‘‘ انور ﷲ اپنی ہیرو ملالہ سے ملاقات کے کچھ ماہ بعد اس دنیا سے رخصت ہوگیا مگر مرتے وقت اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی کہ اس کا ملالہ سے ملنے کا خواب پورا ہوا۔ انور ﷲ چاہتا تو میک اے وش سے کسی بھی چیز کی خواہش کرسکتا تھا مگر انور ﷲ کی آخری خواہش ملالہ سے ملنے کی تھی جسے وہ اپنا ہیرو تصور کرتا تھا۔12 جولائی کو جب شدت پسندی کے خلاف علامت بننے والی نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کی سالگرہ کی خوشیاں منائی جارہی تھیں تو پاکستان میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے حکام آکسفورڈ یونیورسٹی کی شائع شدہ کتاب ضبط کررہے تھے۔ یہ کتاب پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے پاس 2019ء میں این او سی حاصل کرنے کیلئے جمع کرائی گئی تھی مگر اسے شائع کرنے کی منظوری نہیں دی گئی۔ بعد ازاں کتاب کی اشاعت کے بعد پاکستان کی اہم شخصیات کے ساتھ ملالہ کی تصویر پر کچھ حلقوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا جس کے بعد کتاب پر پابندی عائد کردی گئی اور اسے مارکیٹ سے اٹھالیا گیا۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ تحریک انصاف جب سے حکومت میں آئی ہے تو ملالہ یوسف زئی کے حوالے سے غیر ضروری سوالات کھڑے کئے جارہے ہیں۔ 2014ء میں جب ملالہ کی کتاب ’’آئی ایم ملالہ‘‘ پشاور یونیورسٹی میں لانچ کی جارہی تھی تو پی ٹی آئی کی پختونخوا حکومت کی طرف سے مداخلت کی گئی اور مبینہ طور پر طالبان کو خوش کرنے کیلئے کتاب پر پابندی عائد کردی گئی۔

پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف قلم کی طاقت سے مزاحمت اور تعلیم کے فروغ کی علامت سمجھی جانے والی ملالہ یوسف زئی جیسی شخصیت کی کتاب ضبط کرکے، این او سی جاری نہ کرکے اور ملالہ کی تصویر پر اعتراض اٹھاکر کہیں ہم دانستہ یا غیر دانستہ طور پر شدت پسندی کو فروغ تو نہیں دے رہے؟ ہم اکثر یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ دنیا میں پاکستان کا منفی تاثر پیش کیا جارہا ہے مگر دنیا جنہیں ہیرو مانتی ہے اور اسے بہادری کے اعتراف کے طور پر نوبیل انعام دے دے توہم اس کے خلاف ہوجاتے ہیں اور اسے سازش قرار دے کر اس کی کردار کشی شروع کردیتے ہیں اور اسے زیرو کرنے پر لگ جاتے ہیں۔ نوبیل پرائز کسی بھی ملک کیلئے باعث ِفخر تصور کیا جاتا ہے۔پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ گزشتہ 70 سال میں پاکستان کی دو شخصیات کو نوبیل انعام سے نوازا گیا جن میں معروف سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام اور سب سے کم عمر نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی شامل ہیں مگر ہمارے لئے شاید یہ اعزاز باعثِ شرم ہے اور ہم ان دونوں ہی شخصیات سے مختلف وجوہات کی بنا پر لاتعلقی ظاہر کرچکے ہیں اور انہیں Own کرنے کو تیار نہیں جو ان پاکستانی ہیروز کی تضحیک ہے۔ اگر ملالہ یوسف زئی ہماری ہیرو نہیں اور وہ اہم شخصیات کی فہرست میں جگہ حاصل کرنے کی حقدار نہیں تو پھر اسکا حقدار کون ہے اور ہمارا ہیرو کون ہے؟ کیونکہ ہیرو پیدا ہوتے ہیں، تراشے نہیں جاتے۔

تازہ ترین