• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے، ایک ہی ماہ میں دوسری بار اضافہ کیا گیا،اس کے ساتھ ہی ایل پی جی بھی5 روپے فی کلو مزید مہنگی ہو گئی۔ پٹرول اب 5 روپے40 پیسے فی لٹر اضافے کے ساتھ 118روپے نو پیسے فی لٹر ہو گیا ہے۔ ڈیزل اور مٹی کا تیل بھی مہنگا کیا گیا۔ پٹرولیم ڈویژن کی طرف سے قوم کے ساتھ نفسیاتی کھیل بھی کھیلا جارہا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے 11روپے فی لٹر اضافے کی سفارش کی گئیجمگر نصف سے کچھ کم اضافہ کیا گیا۔ یوں تاثر یہ دیا گیا کہ یہ ہمدردانہ عمل ہے،حکومت کا موقف ہے کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، اضافہ مجبوری ہے، جو کم سے کم کیا جا رہا ہے، اس کے باوجود پاکستان میں یہ نرخ دیگر ممالک سے کافی کم ہیں، صارفین نے بھی احتجاج کیا کہ ہر اضافے کا بوجھ ان پر منتقل کیا جاتا ہے، حکومت اپنے ٹیکسوں اور لیوی میں کمی نہیں کرتی، ہر اضافہ ان ٹیکسوں میں بھی فائدہ مند ہوتا ہے کہ ٹیکس بھی بڑھ جاتے ہیں، جو حکومتی آمدنی کو زیادہ منافع بخش بنا دیتے ہیں۔ حکومت کو کاروباری سوچ کو خیر باد کہہ کر عوام کی قوتِ خرید کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کرنے چاہئیں کیونکہ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ مارکیٹ اور ملک کے پورے معاشی ڈھانچے کو متاثر کرتا ہے۔

وفاقی بجٹ کے حوالے سے مہنگائی میں اضافے کا جو خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا، وہ سامنے آنے لگا ہے اور نئے مالی سال کے آغاز ہی سے مجموعی طور پر اشیاء کے نرخوں میں25فیصد تک اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ادھروفاقی ادارہ شماریات کی طرف سے2 سال کا تقابلی جائزہ بھی جاری کر دیا گیا ہے، اس کے مطابق جو اضافی فرق پڑا وہ گندم کی قیمت19فیصد، آٹے کی قیمت 13.43فیصد، گندم سے تیار اشیا25فیصد، بیکری اور کنفیکشنری 17.39 فیصد، گوشت 16.66 فیصد، دودھ14فیصد، انڈے 39فیصد اور مکھن 14فیصد ہے۔ یہ موازنہ جون2020ء اور جون 2021ء کے درمیان کا ہے۔ تاہم اب نرخوں میں یکم جولائی سے یکایک 20سے 25فیصد تک اضافہ کر دیا گیا، خصوصاً برانڈڈ اشیاء ان میں بیکری، کنفیکشنری، چائے، صابن، ڈیٹرجنٹ پاؤڈر اور مسالے شامل ہیں۔ سبزی اور پھل کے نرخ بھی بڑھے ہیں۔ یہ غیر متوقع نہیں تھا کہ بجٹ میں جو ٹیکس لگائے یا بڑھائے گئے یا ان میں ردوبدل کیا گیا،ان کے اثرات ایسے ہی مرتب ہونے تھے۔ یہ مالی سال خوراک کے لحاظ سے بھی مشکل ہو گا کہ آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے وزارت خزانہ کے دعوے درست ثابت نہیں ہوئے،مہنگائی میں کمی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

ذوالحج کا ماہِ مقدس شروع ہونے سے پہلے ہی بجٹ نے گرانی میں اضافہ کیا تو عید الاضحی کی آمد کے حوالے سے متعلقہ مسالا جات اور سبزیوں کے نرخ بڑھا دیئے گئے ہیں،معمول کے مطابق انتظامیہ بے بس ہو کر رہ گئی ہے ہر سال اس موقع پر قربانی کے جانوروں کی قیمت تو گزشتہ برسوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہی ہے، اور اِس بار بھی ایسا ہی تھا، اس کے باوجود قربانی دینے والے اپنی اپنی قوتِ خرید کے مطابق جانور خریدنے جاتے ہیں،یا پھر گائے کی قربانی میں حصہ ڈالتے ہیں۔ تاہم مسالہ جات، ادرک، لہسن، پیاز اور ٹماٹر کے نرخ روزانہ کی بنیاد پر بڑھ جاتے ہیں، 30روپے سے50اور پھر60 روپے فی کلو والے ٹماٹر 100روپے فی کلو ہو گئے ہیں،اور اگلے دِنوں میں مزید بڑھ سکتے ہیں، اسی تناسب سے پیاز، لہسن اور ادرک کے ساتھ پودینہ اور لیموں کے نرخ بھی بڑھے ہیں، چینی کی قیمت کسی سطح پر کم نہیں ہوئی تھی اور اب تو120 روپے فی کلو تک چلی گئی ہے، حکومت نے سستے بازار لگا کر سابقہ ماڈلوں کی جو پیروی کی وہ بھی ریلیف کا سبب نہیں بن سکی کہ دکاندار بھی بازار کے نرخ کے پابند ہیں،ان کے مطابق وہ ناجائز منافع سے ہی گریز کر سکتے ہیں لیکن بازار کے مقابلے میں اشیاء زیادہ سستی نہیں بیچ سکتے کہ خرید مہنگی ہوں گی تو فروخت ارزاں نہیں ہو سکتی،چہ جائیکہ سرکاری نرخوں پر سختی سے عمل ہو، جہاں تک انتظامیہ کا تعلق ہے تو پرچون فروشوں کو پکڑا جاتا ہے، رسد اور طلب کے حوالے سے تھوک فروشوں اور آڑھتیوں کو کچھ نہیں کہا جاتا، حکومت عوام کو ریلیف دینے کا دعویٰ کرتی ہے تو اسے اپنا یہ دعویٰ سچ کرکے بھی دکھانا چاہئے۔ دوسری جانب نیپرا نے کمرشل اور زرعی صارفین کیلئے بجلی 2روپے97 پیسے مہنگی کرنے کی منظوری دے دی ہے، گھریلو صارفین کیلئے قیمت8پیسے فی یونٹ اور کمرشل صارفین کیلئے11پیسے فی یونٹ بڑھائی جائے گی۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ3سال میں بجلی کے نرخوں میں 21مرتبہ اضافہ کیا گیا اور عالمی منڈی میں فرنس آئل کی قیمتوں میں اضافے کو جواز بنا کر مجموعی طور پر21روپے 55پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا،موجودہ حکومت کے پہلے سال، یعنی 2018میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے تحت 4بار ردوبدل کیا گیا،جس میں3بار اضافے سے ایک روپیہ 22پیسے فی یونٹ کا بوجھ عوام پر ڈالا گیا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین عہدہ سنبھالنے سے پہلے اور بعد میں کہتے رہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے معیشت کی ترقی رک جاتی ہے،اِس لئے وہ بجلی کی قیمتیں بڑھانے کے حق میں نہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی ایم ایف قیمتیں بڑھانے کیلئے دباؤ ڈال رہا ہے،لیکن ہم یہ شرط ماننے کیلئے تیار نہیں۔ انہوں نے اپنا یہ دعویٰ اور وعدہ کئی بار دہرایا جس سے عوام الناس یہ سمجھنے میں حق بجانب تھے کہ وہ اپنی کہی ہوئی باتوں کا پاس کریں گے،لیکن مالی سال شروع ہونے کے دوسرے ہی روز بجلی کی قیمتیں بڑھانے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

تازہ ترین