• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خبر آئی کہ مصری فوج نے اڑتالیس گھنٹوں کا الٹی میٹم دے کر صدر مرسی کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا ہے جن کا تعلق اخوان المسلمون سے تھا اور وہ عوام کے ووٹوں کی اکثریت سے اقتدار میں آئے تھے۔ امام حسن البنا نے اِس تنظیم کی بنیاد 1926ء میں رکھی اور عربوں کے اندر اسلام کے نفوذ کا ایک نہایت موٴثر طریقہ اختیار کیا تھا۔ اُن کی دعوت محبت اور اخوت کی بنیاد پر تھی  اُن کی شخصیت میں اِس قدر کشش تھی کہ لوگ اُن کی طرف کھنچتے چلے آئے اور یوں اخوان المسلمون چوبیس پچیس برسوں کی محنت سے ایک زبردست عوامی قوت بن گئی۔ امام حسن البناجمہوریت پر یقین رکھتے اور پُرامن تبدیلی کے داعی تھے۔ انہی دنوں ہندوستان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ جس کا نصب العین احیائے دین اور جمہوری عمل کے ذریعے معاشرے میں تبدیلی لاناتھا۔ 1948ء میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کا فیصلہ ہوا  تو فلسطینیوں نے اِسے مسترد کرتے ہوئے یہودیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ مصر کے شاہ فاروق نے فلسطینیوں کی مدد کے لیے اپنی فوج بھیجی جو ناکارہ اسلحے اور آرام کوشی کے باعث پسپا ہو گئی  مگر اخوان کے مجاہدین نے زبردست مزاحمت کی جس نے امریکا کو یہ شدید احساس دلایا کہ اخوان المسلمون کے مرشد عام کو راستے سے ہٹائے بغیر اسرائیلی ریاست قائم نہ ہو سکے گی  چنانچہ12فروری 1949ء کو جب امام حسن البنا اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ ایک اہم اجلاس میں شرکت کے لیے جا رہے تھے  تو اُن پر قاتلانہ حملہ ہوا۔مصری حکومت نے ہسپتال میں اُنہیں طبی امداد فراہم کرنے سے روک دیا اور اُن کی میت رات کی تاریکی میں اُن کے گھر پہنچا دی گئی۔
امام حسن البنا کا گھر عام سی بستی میں تھا۔ پولیس نے اُس پوری بستی کو گھیرے میں لے لیا اور کسی شخص کو اُن کے جنازے میں شریک نہیں ہونے دیا  چنانچہ اُن کی بیٹیوں نے اپنے والد کی میت کو کندھا دیا اور ہُوکے عالم میں قبر میں اُتارا۔ کتابوں میں اِس امر کے شواہد ملتے ہیں کہ یہودیوں کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے فوج کا ایک نیشنلسٹ گروپ اخوان سے متاثر ہوا جس میں نجیب اور جمال عبدالناصر بھی شامل تھے۔ اِس گروپ نے بعد میں شاہ فاروق کی فوجی ناکامی پر اُسے اقتدار چھوڑ دینے کا الٹی میٹم دیا اور اُس کی جگہ پہلے نجیب نے لی اور بعد ازاں جمال عبدالناصر عرب قومیت کے نعرے پر حکمران بن بیٹھا۔ اُسے اخوان المسلمون کی تنظیمی قوت اور جذبہٴ سرفروشی کا خوب اندازہ تھا اِس لیے اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے لیے اُن کے خلاف بڑی سفاکی سے ریاست کی مشینری استعمال کی اور پچاس ہزار سے زائد اخوان کارکن جیلوں میں ڈال دیے اور سید قطب انتہائی بے دردی سے شہید کر دیے گئے۔اذہان میں پُرامن تبدیلی کی اُمنگ پیدا کرنے والی اُن کی کتابیں عرب و عجم میں ذہنی انقلاب کی راہ ہموار کر رہی تھیں۔ اُنہیں سخت اذیتیں دے کر سولی پر لٹکا دیا گیا۔ اُن کی سفاکانہ شہادت کی خبر پر پورے عالمِ اسلام اور خاص طور پر پاکستان میں اَن گنت اہلِ شعور اشک بار اور دل گرفتہ رہے کہ اُن کی بیش قیمت متاع تلف ہو گئی تھی۔جمال عبدالناصر کے بعد انوار سادات کا دور آیا جو اخوان المسلمون کے لیے مزید صبر آزما تھا کہ اُس نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے تھے  مگر اُس کی قیادت نے صبر اور اعتدال کا راستہ اپنائے رکھا اور اپنے ارکان کی اخلاقی تربیت اور تعمیر سیرت پر خصوصی توجہ دی۔ وہ مصر میں صالح عناصر کی نشوونما کرتی اور عوام کے ساتھ جڑی رہی۔ زیرک اور بالغ نظر قائدین نے پارلیمانی انتخابات میں بھی حصہ لیا  مگر پے در پے ناکامیوں سے دلبرداشتہ ہو کر اخوان المسلمون کا ایک چھوٹا سا گروہ ایمن الظواہری کی قیادت میں منظم ہوا جس نے انور السادات کو پریڈ کے میدان میں قتل کر ڈالا۔ اِس پُرتشدد واقعے سے اخوان کی آزمائش میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا  مگر وہ استقامت اور عزیمت کے ساتھ امن اور سلامتی کے راستے پر گامزن رہی جبکہ ایمن الظواہری القاعدہ کے آپریشنل کمانڈر بن گئے اور دہشت گردی کے ہاتھوں بے گناہ عورتیں اور بچے مارے گئے۔ اِسی دوران اخوان المسلمون نے جناب البدیع کو اپنا مرشد عام چُن لیا جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے معاشرے میں اپنی جماعت کے لیے خاص مقام حاصل کیا اور 2011ء میں حسنی مبارک کی فسطائیت کے خلاف اُٹھنے والی تحریک میں سنبھل کر حصہ لیا۔ عوام کی فتح کے بعد جب انتخابات کا مرحلہ آیا تو جسٹس پارٹی کے نام سے اِس میں حصہ لیا۔ اعلیٰ قیادت کو بھر پور احساس تھا کہ ایک طرف جناب ایمن الظواہری خونی انقلاب کی دعوت دے رہے ہیں  دوسری طرف سلفی بہت سرگرم ہیں جو شریعت کے بارے میں خاصے متشدد ہیں اور تیسری طرف حسنی مبارک کے پروردہ فوج  عدلیہ اور بیوروکریسی میں ابھی تک اہم عہدوں پر موجود ہیں۔ اِس کے علاوہ عوام کے اندر لبرل ازم کے نام پر نوجوانوں کی خاصی بڑی تعداد نفسانی خواہشات کی اسیر ہو چکی ہے اِ س لیے صدر مرسی کو اقتدار تک پہنچنے کے لیے دو بار انتخابات کے عمل سے گزرنا پڑا اوروہ فقط 52فی صد ووٹ حاصل کر سکے۔ ایک ایسی سرزمین جس نے کبھی حقیقی جمہوریت کو پروان چڑھتے نہیں دیکھا تھا  اُس میں پہلی مرتبہ اخوان المسلمون کا اعلیٰ ترین منصب تک پہنچ جانا قیادت کی دانش اور دور بینی کا ایک بہت بڑا کرشمہ تھا۔ صدر مرسی کے خلاف فوجی بغاوت ایک داخلی مسئلہ ہونے سے زیادہ ایک سنگین بین الاقوامی مسئلہ بھی ہے اور میں واضح طور پر دیکھ رہا ہوں کہ آخر کار سیکولر طاقتوں کو عبرتناک شکست ہو گی جو اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو چکی ہیں اور التحریر اسکوائر پر جمع ہونے والے بدقماشوں کا ایک گروہ سو سے زائد خواتین کی آبروریزی کا مرتکب ہوا۔ اِنہی اخلاق باختہ طاقتوں نے یہ بدبودار پروپیگنڈہ کیا کہ اخوان المسلمون کے مرشد عام ستائیس بیویوں کے ہمراہ صحت افزا مقام پر رنگ رلیاں منا رہے تھے۔ ہمارے ہاں ایک کالم نگار بھی اُسی خبث ِباطن کا حصہ بن گئے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ امام حسن البنا کے قافلے کی عظمت کو آسمان بھی جھک کر سلام کرتا ہے۔
ہمیں اہلِ عزم کی جداگانہ شان چین میں نظر آئی ہے جہاں ہمارے وزیر اعظم پانچ روزہ سرکاری دورے پر تھے اور پورے خطے کے لیے ترقی اور خوشحالی کی نوید لے کر آئے ہیں۔ قوم اُن کے ویژن کو سلام کرتی ہے۔ اِس دورے کی اِس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا کہ جونہی نندی پور ہائیڈل پراجیکٹ کے معاہدے پر دستخط ہوئے  چینی انجینئرز اگلے ہی روز کراچی پہنچ گئے اور سالہا سال سے زنگ خوردہ مشینری کو ورکنگ کنڈیشن میں لانے کی تدبیریں کرنے لگے۔ اصل میں یہی اسپرٹ کارہائے نمایاں تخلیق کرتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پانچ روزہ دورے میں جن معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں اُن پر عمل درآمد کے لیے ہماری طرف سے کس قدر مستعدی  فرض شناسی اور جاں سپاری کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ تازہ دم حکومت بڑی دانائی اور اعلیٰ منصوبہ بندی کا ثبوت دے گی  مگر امیدوں کی دھنک پر قدم رکھنے سے پہلے جناب وزیر اعظم کو دورہٴ چین کے منصوبہ بازوں کی گوشمالی کرنا ہو گی جنہوں نے ”کفایت شعاری“ کے نام پر صحافیوں اور وزارتِ خارجہ کے اہم لوگوں کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کیااور اِس اہم واقعے کی جلوہ آرائی میں بے بصیرتی اور خود آرائی کی ملاوٹ کر ڈلی۔ چینی قیادت نے خطاکاروں کا بروقت محاسبہ کر کے اِس عظیم الشان ترقی کا راستہ طے کیا ہے۔
تازہ ترین