اسلام آباد (طارق بٹ) پناما لیکس کی دوسری قسط پیر کو جاری ہوگی جس میں مزید پاکستانیوں کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوگا اور اس کے نتیجے میں معاملے کے فوری پن کے احساس کے تحت حکومت اور اپوزیشن کوٹی اوآرز پر اتفاق رائے پیدا کرنے کےلیے مذاکرات کا آگاز کر سکتے ہیں تاکہ جوڈیشل کمیشن اس معاملے سے جلد از جلد نمٹ سکے۔اب تک دونوں فریقین اپنے اپنے ٹی اوآر عوام کے امنے لا چکے ہیں جن میں کوئی مشترک باتن ہیں ہے دونوں ایک دوسرے کے ٹی او آرز کو مسترد کر رہے ہیں۔حکومت کی شرائط’وسیع تراحتساب ‘ کےلیے ان لوگوں کو بھی کور کرتی ہیں جنہوں نے قرضے معاف کرائے لیکن اپوزیشن کا ٹی اوآر وزیر اعظم نواز شریف سے مخصوص ہے۔ یہ کمیشن کی انکوائری کی شرائط پر اتنا زور نہیں دیتے جتنا وہ وزیر اعظم کیخلاف فرد جرم زیادہ ہے۔ امکان اس امر کا ہے کہ متوقع نئے انکشافات کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس انور ظہیر جمالی عدالتی کمیشن کی تشکیل کےلیے وزیر اعظم کے لکھے ہوئے خط پراور اس میں دیئے گئے ٹی اوآر ز کی بنیاد پر کمیشن بنا دیں گے ۔ تاحال انہوں نے اس حوالے سے اپنے فیصلے کے بارے میں کوئی عندیہ نہیں دیا۔تاہم مختلف لوگ ہفتے کو ان کے جاری ہونے والے بیان مین بین السطور پیغام کی وضاحتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے کہا تھا کہ ہر شخص حقوق کے بارے میں بات کرتا ہےلیکن کوئی بھی شخص اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور انہیں نبھانے کےلیے تیار نہیں ہے؛ ایک دوسرے کے خلاف الزامات کے کلچر کو فروغ دیاجارہا ہے؛ قوانین کا نفاذ صرف عدلیہ کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے؛ اور عدلیہ ،انتظامیہ اور مقننہ سب کو ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ آئین کے تحت دیئے گئے اپنے اپنے ڈومین میں اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔تحریک انصاف پاکستان کے چیئر مین عمران خان پہلے ہی چیف جسٹس کو یہ عذرداری پیش کر چکے ہیںکہ اگر انہوں نے حکومتی ٹی اوآر قبول کیے تووہ کمیشن قبول نہیںکریں گے، انہوںنے یہ بھی کہا کہ ہم ان کا رویہ دیکھ رہے ہیں۔ اور اگر کمیشن کے قیام میں تعصب برتا گیا اور یہ سرکاری ٹی اوآر کی بنیاد پر بنایا گیا تو اسے مسترد کر دیاجائےگا۔ اس طریقے سے انہوں نے اعلیٰ ترین جج کو دبائو مین لانے کی اپنی پرانی تکنیک پھر سے استعمال کی ہے۔ وہ پہلے بھی اس وقت ایسا کرچکے ہیں جب عدالت عظمیٰ نے انتخابی دھاندلیوں کے الزمات کی تحقیقات کیں اور جج ان کی چال میں نہیں پھنسے تو انہوں نے ججوں کو د’ھن کے رکھ دیا تھا۔اس سے قبل ایسا اس لیے ہوا تھا کیونکہ عمران خان کی مہم میں سپریم کورٹ کے کم از کم پانچ ججوں جن میں کم از کم دو چیف جسٹس بھی شامل تھے انہوں نے انکوائری کمیشن کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔جب وزیر اعظم کے ایک سینئر مشیر سے دریافت کیاگیا کہ اگر چیف جسٹس نے وزیر اعظم کے خط کے مطابق کمیشن بنانے سے انکار کر دیا تو سرکاری حکمت عملی کیا ہوگی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’’حکومت کسی بھی طور سے چیف جسٹس کو ایسا فورم بنانے پر مجبور نہیں کر سکتی تاہم اس کا نتیجہ یہ ہوکستا ہے کہ ایک حکومت اور اپوزیشن پر مشتمل ایک ایسی پارلیمانی کمیٹی بنادی جائے جس کے توسط سے اس معاملے پر اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت پر غور ہوسکے۔‘ایک اور صورت یہ ہے ہوسکتی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن متفقہ ٹی او آر تشکیل دے کر چیف جسٹس سے استدعا کریں کہ وہ کمیشن بنادیں لیکن اس کےلیے انہیں اس عزم کا ظہار کرنا ہوگا کہ وہ معاملے کی سماعت پر تبصرہ نہیں کریں گے اور اس کے نتائج کو تسلیم کرلیں گے۔دریں اثنا حکومت کی مذاکرات ٹیم جسے اپوزیشن کے ساتھ ٹی اوآرز پر مذاکرات کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے اس میں حکمران جماعت کی اتحادی جماعتوں کے چند سینئر ارکان کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔محمود اچکزئی، حاصل بزنجو اور پروفیسر ساجد میر کو وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی کا حصہ بنایا جاسکتا ہے ،۔یہ سبھی شخصیات جہاندیدہ سیاستدان ہیں، مذاکرات کے فن میں طاق ہیں اور ڈار کی مدد کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہیں۔ یہ سب وہ شخصیات ہیں جنہوں نے اتفاق رائے سے اپوزیشن کے ٹی اوآرز کو بدنیتی پر مبنی اور نواز شریف سے مخصوص ہونے کی وجہ سے مسترد کر دیا تھا۔جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمٰن ،پختونخواہ عوامی ملی پارٹی کے اچکزئی، نیشنل پارٹی کےحاصل بزنجو، جماعت اہلحدیث کے پروفیسر ساجد میراور اپنے لیگی دھڑے کی نمائندگی کرنے والے اعجاز الحق نے وزیر اعظم اور کابینہ کے ارکان سے ملاقات میں نوازلیگ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے ۔مشاورت کے دوران اس امر پر بھرپور اتفاق رائے تھا کہ اپوزیشن کے ٹی او آر درست نہیں ہیں۔ اپنے اظہار خیال میں فضل الرحمٰن نے ان شرائط کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان اپوزیشن جماعتوں کا موقف تضادات کا شکار ہے۔چونکہ اپوزیشن اکٹھی ہورہی ہے اور سات اپوزیشن جماعتیں اپنے ٹی او آرز دینےکےلیے ایک چھت کے نیچے جمع ہوئیں ۔ تاہم ان میں سے چند ایک کی مخالفت کے باعث ان سب کو وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبے سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ ان جماعتوں میں پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی ، جماعت اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ ، قومی وطن پارٹی اور ق لیگ شامل ہیں۔انہوں نے جوٹی اوآر تشکیل دیئے ہیں وہ متنازع نکلے اور چند بڑے وکلا سمیت معاشرے کے مختلف طبقات نے وسیع پیمانے پر انہیں مسترد کر دیا ہے ۔اس حقیقت کے باوجود کہ حکومت نے اپوزیشن کے ٹی او آرز کو مسترد کر دیا تھا انہوں نے تمام فریقین سے بات چیت پر رضامندی ظاہر کی تاکہ ٹی او آر کی شرائط پر اتفاق رائے پیدا کیاجاسکے۔