• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کووڈ وائرس انسان کا پیدا کردہ نہ کسی لیب سے لیک ہوا، چینی حکام کا واضح جواب

کراچی (رفیق مانگٹ )چینی حکام نے کووڈ کے حوالے سے عالمی سطح پر ہونے والی تنقیداور افواہوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کووڈ وائرس انسان کا پیدا کردہ نہیں،نہ یہ کسی تجربے کے دوران کسی لیب سے لیک ہوا۔ووہان لیب کے متعلق تمام افواہیں جھوٹ پر مبنی ہیں،نہ وہاں کووڈ وائرس کی تحقیق ہوئی نہ وہاں کا کوئی اسٹاف ممبر یا طالب علم اس کا شکار ہوا۔ 

وائرس سے کی گئی کوئی چھیڑ خانی اپنے نشانات چھوڑ جاتی ہے جب کہ کووڈ میں ایسا کوئی نشان نہیں ملا۔جانوروں سے پھیلنے کے مفروضے بھی غلط ہیں،ابھی تک اس کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں۔سائنسی ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ وائرس قدرتی طور پر سامنے آیا۔چینی حکام میڈیا نمائندوں کے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔

1918کے فلو،2009کے ایچ ون این ون وبا اور ایڈز کی ٹریسنگ کے حوالے سے پہلے کام ہوا تھا،کووڈ کی اصل کے متعلق عالمی سطح پر یہ تحقیق کی اہمیت اور وجوہات کیا ہیں؟ کا جواب دیتے ہوئے حکام کا کہنا تھا کہ متعددی بیماری کے تین اہم امورہیں۔

انفیکشن کاذریعہ،ٹرانسمشن روٹ،اور انفیکشن کا شکار،اس کے مطالعے کی اہمیت یہ ہے کہ مستقبل میں دیگر متعددی امراض کی روک تھام ہوسکے۔ کووڈ وائرس قدرتی ردعمل یا انسانی عوامل کا عمل دخل ہے؟ 

اس کا جواب دیتے ہوئے چینی حکام کا کہنا تھا ووہان لیبارٹری کے تین اسٹاف ممبرز کا کورونامیں مبتلا ہونیکی خبریں جھوٹ تھیں دوسری، لیب نے چمگاڈر کے کرونا وائرس کے نمونے حاصل کیے جو 96فی صد سارس کووڈ ٹو سے ملتے جلتے تھے۔ لیکن ابھی تک کسی جانور سے اس کی ابتدا ہوانے کی بات ہے تو اس کے شواہد نہیں ملے ۔

اب حیرانگی یہ کہ سارس انسان کاپیداکردہ ہے بھارتی سائنس دانوں نے کہا کہ سارس کووڈ ٹو اور ایچ آئی وی میں مماثلت ہے تو یہ قیاس آرائی کی گئی کہ انسان کا پیداکردہ ہے بین الاقوامی تنقید کے بعد محققین نے وہ پیپر واپس لے لیا۔

وائرس میں کی گئی کوئی چھیڑ خانی اپنے نشانات چھوڑ جاتی ہے جب کہ کووڈ میں ایسا کوئی نشان نہیں ملا لہذا انسان کا پیدا کردہ وائرس والی بات جھوٹ ہے۔ ووہان لیب کا کوئی پوسٹ گرایجوایٹ طالب علم اور اسٹاف کبھی کووڈ ٹو کا شکار نہیں ہوا اور نہ انہوں نے کبھی اس پر تحقیق کی۔ 

جب وہاں کوئی وائرس بنا ہی نہیں تو لیک ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔اس کی بنیاد کا کھوج لگانا سائنسی ایشو ہے اسے سیاست زدہ نہ کیا جائے۔ووہان لیب نے ان افواہوں کی کئی بار تردید کی۔آکیڈمک اتفاق ہے کووڈ وائرس فطرتی طور پر سامنے آیا۔ 

امریکی،برطانوی،آسٹریلیا کے سائنس دانوں کے تحقیقی پیپروں میں کہا گیا کہ ابھی تک ایسی کوئی شہادت نہیں ملی کہ یہ کسی لیبارٹری کا تیار کردہ ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ووہان لیب سے لنک ہے۔ رپورٹ کا پس منظر کووڈ19وائرس کی ابتدا کہاں سے ہوئی اس گتھی کو سلجھانے کیلئے چین نے عالمی ادارہ صحت کے ساتھ مل کر ایک مشترکامطالعے کا آغاز کیا۔وائرس کی اصلیت کے لئے ٹیم تشکیل دی گئی۔

چینی اور ڈبلیو ایچ او ماہرین نے گذشتہ جولائی میں ریفرنس کی شرائط (ٹی او آر) پر تبادلہ خیال کرکے اسے مشترکہ تیار کیا۔اس سال کے آغاز پر، ڈبلیو ایچ او کی بین الاقوامی ماہر ٹیم چین پہنچی اور وائرس کی ابتدا کے عالمی مطالعہ شروع کیا۔ چین نے کشادگی، شفافیت، سائنس اور تعاون کے اصولوں کو برقرار رکھا اور ماہر ٹیم کو مکمل تعاون کیا۔ 

مقامی حکومتوں کے ساتھ مل کر، ماہرین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے متعلقہ تنظیموں کو مربوط کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ ماہرین نے کل نو جگہوں کا دورہ کیا جہاں وہ جانا چاہتے تھے۔ انہوں نے ہر ایک سے بات کی جس کے ساتھ وہ بات کرنا چاہتے ہیں۔ مطالعے کے نتائج یہ رپورٹ وائرس کی بنیاد کے عالمی مطالعے میں چین کا حصہ ہے۔ 

ماہر ٹیم مندرجہ ذیل نتائج پر پہنچی۔ چمگادڑ اور پینگولن میں پائے جانے والے کورونا وائرس سب سے زیادہ کووڈ ٹوسے وابستہ ہیں، تاہم جانوروں سے اب تک شناخت شدہ وائرس میں سے کوئی بھی براہ راست اس کی بنیاد نہیں۔ مشترکہ ٹیم نے وائرس کے مختلف ممکنہ راستوں کے امکانات کا اندازہ کیا۔ پہلے، براہ راست جانوروں کو ممکنہ راستہ سمجھا جاتا ہے۔ 

دوسرا، ایک کوئی درمیانے ذریعے کو ممکنہ راستہ سمجھا جاتا ہے یعنی وائرس جانوروں سے کسی اور شے پر منتقل ہوتا ہے اس کے بعد انسانوں میں منتقل ہوتا تھا۔ تیسرا ممکنہ راستہ کولڈ فوڈ چین مصنوعات ہیں یہ ایک ممکنہ راستہ سمجھا جاتا ہے۔ آخر میں، ایک تجربہ گاہ کو ممکنہ راستہ سمجھا جاتا ہے۔

وائرس کی اصلیت کا پتہ لگانے کااگلہ مرحلہ ایک طرف، ہم متعلقہ محکموں اور سائنسدانوں کو فعال طور پر ان کاموں کو جاری رکھنے کے لئے معاونت کر رہے ہیں جن کی تکمیل اور بہتری کی ضرورت ہے، جو عالمی مطالعے کی مشترکہ رپورٹ کے حصے میں دی گئی اور وہ عالمی ادارے کو رپورٹ دے۔ 

دوسرے الفاظ میں، ہم باقی کام جلد از جلد مکمل کریں گے۔اصلیت کا پتہ لگانا ایک پیچیدہ سائنسی معاملہ ہے۔ایڈز، ایبولا، مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم، 2003 کا سارس، اور 2009 کا ایویئن فلو جیسی بیماریوں کی اصل نشاندہی کرنا بہت مشکل ثابت ہوا، اور ان کی کچھ ابتداء ابھی بھی دریافت نہیں کی جاسکی۔

تازہ ترین