وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں ’’نئے چیئرمین نیب‘‘ کے لئے کئی امیدواروں کے ناموں کے بارے میں خبریں گردش کر رہی ہیں۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’مذکورہ اعلیٰ منصب‘‘ کو حاصل کرنے کے سلسلہ میں کئی ریٹائرڈ اعلیٰ سرکاری افسران اپنے اپنے گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس اعلیٰ عہدے کی خواہش رکھنے والوں کی صف میں بیورو کریسی اور عدلیہ کے ریٹائرڈ اعلیٰ افسران حکومت اور اپوزیشن کے بڑے راہنمائوں کو اعتماد میں لینے کے سلسلہ میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے جن دو امیدواروں کے نام گردش کر رہے ہیں۔ ان میں ایک ریٹائرڈ جج اور ایک اعلیٰ بیورو کریٹ کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ سب سے زیادہ عسکری پس منظر رکھنے والے ایک سابق چیف سیکرٹری پنجاب کو ’’فیورٹ‘‘ خیال کیا جا رہا ہے۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ’’مقتدر شخصیت‘‘ کی قربت کی وجہ سے اسے اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد بھی حاصل ہے۔؟
پیر صاحب کی کرامات
وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں ایک وفاقی سیکرٹری کے عہدے کے افسر کی ایک ’’پیر صاحب‘‘ کے ہاں کثرت سے حاضر ی کے بارے میں کئی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ پوش علاقہ میں واقع ’’پیر صاحب‘‘ کی رہائش گاہ پر جا کر اپنے محکمہ کے حوالہ سے ان سے براہ راست راہنمائی اور ہدایات لینے کا معاملہ مذکورہ وفاقی سیکرٹری کا روزانہ کا معمول ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ پٹرول اور گیس کے نئے ذخائر دریافت کرنے کے سلسلے میں ’’پیر صاحب‘‘ کے احکامات کی روشنی میں وسائل کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔
یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ محکمہ کے کئی افسران بھی اپنے ’’باس‘‘ کو راضی رکھنے کے لئے ’’پیر صاحب‘‘ کے آستانہ پر حاضری دیتے ہیں۔ مذکورہ وفاقی سیکرٹری اس سے قبل پنجاب میں صوبائی سیکرٹری کے طور پر معدنیات کے ذخائر دریافت کرنے کا شرف بھی حاصل کر چکے ہیں۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ بیورو کریٹ وفاقی وزیر سے زیادہ وفاقی دارالحکومت کے اس ’’پیر صاحب‘‘ کے ماتحت ہیں۔ ؟
پولیس افسر کے تبادلے کی کہانی؟
صوبائی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں ایک ایس ایس پی عہدہ کے پولیس افسر کے ’’تبادلہ‘‘ کے حوالہ سے کئی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ افسر کو ایک اعلیٰ عہدہ کے پولیس افسر کی ’’سفارش‘‘ پر انویسٹی گیشن کے اہم شعبے کا سربراہ لگایا گیا تھا۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ مذکورہ افسر نے تعیناتی کے بعد جرائم کے خلاف ’’کریک ڈائون‘‘ کے سلسلہ میں ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی جس میں اپنے ’’من پسند‘‘ پولیس والوں کو بھی شامل کر لیا جو براہ راست ان کے ’’خصوصی احکامات‘‘ پر عملدرآمد کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔
یہ بھی سننے میں آیا ہے ان میں کچھ اس طرح کی ’’خفیہ رپورٹیں‘‘ بھی موصول ہوئی تھیں کہ بعض ماتحت افسران مذکورہ پولیس افسر کی ’’خوشنودی‘‘ کی خاطر دن کو رات اور رات کو دن بنا رہے تھے۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ افسر کے بارے میں اطلاعات کی تصدیق کے بعد سی پی او سے تبادلہ کا ’’پروانہ‘‘ جاری کیا گیا تھا؟