جس جرأت مند پاکستانی نے ایبٹ آباد کمیشن کی انکوائری رپورٹ کوافشا کیا ہے، اُس نے بہت بڑی قومی خدمت سرانجام دی ہے۔ یہ رپورٹ ہمارے دفاعی اور خفیہ اداروں کی نااہلی، کوتاہی اور کسی حد تک ناروا معاملات میں ملوث ہونے پر روشنی ڈالتے ہوئے آئندہ کے لئے ایسی صورتحال سے بچنے کے طریقے تجویز کرتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ بہت سے حلقے اس رپورٹ کی تیاری پر شکوک و شبہات رکھتے تھے لیکن اس کمیشن، جس کی سربراہی جسٹس (ر) جاوید اقبال کررہے تھے کے ممبران تحسین کے مستحق ہیں کہ اُنہوں نے ہمارے سامنے سچائی کو بے نقاب کیا۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ سرکاری افسران اور میڈیا کے کردار کا بھی جائزہ لیتی ہے۔ اس نے اسامہ بن لادن کی ازدواج سے ملاقات کی اور اُن سے پیش آنے والے حالات و واقعات کی کہانی سنی۔ اس نے آئی بی، ایف آئی اے، ایم آئی، این ایس اے اور آئی ایس آئی کے بیانات کو ریکارڈ کیا۔ اس کے بعد اس نے بتیس صفحات پر نتائج اور سفارشات مرتب کیں۔ اس رپورٹ میں لیفٹیننٹ جنرل شجاع احمد پاشا جو اُس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے، کے مشاہدات اور تصورات کے ساتھ ساتھ اُن کی شخصیت کا جائزہ بہت دلچسپ چیز ہے۔ جنرل صاحب نے بجا طور پر آئی ایس آئی کے پیشہ ورانہ معیار اور ملک و قوم کے لئے اس کی قربانیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُنہیں اس پر ناز ہے۔ اُن کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ آئی ایس آئی کے 1975ء میں طے کئے گئے ضابطے کے مطابق اندرونی سیکورٹی اس کے ذمہ چوبیس کاموں میں سے ایک ہے ۔ اندرونی تحفظ دراصل آئی ایس آئی کے ساتھ ساتھ آئی بی، سی آئی ڈی، اسپیشل برانچ، وزارت ِ داخلہ، پولیس، مسلح افواج ، ایم آئی ، سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
اُنہوں نے کمیشن کو بتایا کہ بن لادن کے معاملے میں آئی ایس آئی نہ تو نااہل ثابت ہوئی ہے اور نہ ہی اس کے جیسا کہ الزام لگایا جاتا ہے انتہاپسندوں کے ساتھ روابط ہیں۔ اپنے دلائل کے ثبوت میں جنرل صاحب نے کہا کہ آئی ایس آئی نے القاعدہ کے بہت سے چوٹی کے قائدین کو گرفتار کرکے سی آئی اے کے حوالے کیا ہے جبکہ اُسامہ کے بارے میں بھی اس نے سی آئی اے کو بہت سے ”ٹپس “ دیئے، جن کی مدد سے امریکی اُسے ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ اُنہوں نے جنرل پرویز مشرف اور اُس وقت کی سول حکومت، جنہوں نے امریکی دباؤ میں آکر سی آئی اے کو ملک میں پھیلنے کا موقع دیا، پر تنقید کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنرل پاشا نے آئی ایس آئی پر تنقید کرنے والوں کے بارے میں غیر معمولی تبصرہ کیا۔ اُنہوں تسلیم کیا”بہت سے اچھے لوگوں کو بھی آئی ایس آئی کے ہاتھوں نقصان پہنچا“ لیکن اُنہوں نے اس اہم ریاستی ادارے کو بے جا تنقید کرنے والوں کے بارے میں کہا اُن کا آئی ایس آئی سے خوف بجا ہے کیونکہ وہ ایسے لوگوں کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اُنہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ سی آئی اے میڈیا اور این جی اوز کے کچھ حلقوں کی آڑ میں ملک میں سرائیت کر چکی ہے اور ایسے عناصر حب الوطن نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنے قول و فعل سے”ملکی مفاد “ کو نقصان پہنچاتے ہیں پھر جنرل صاحب نے بے حد واضح انداز میں کہا ہے کہ ان لوگوں کی وجہ سے ”پاکستان ایک کمزور اور خوفزدہ ریاست “ بن چکا ہے اگرچہ اسے ایک ”ناکام ریاست “ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی کمزوری کی وجہ بڑھتی ہوئی بدعنوانی اور ناقص حکومتی نظام بھی ہے۔ پاکستان میں ہر نظام انحطاط کا شکار ہے کیونکہ پاکستانی معاشرے میں غیر ملکی آلہٴ کار گھس آئے ہیں۔ اُنہوں نے الزام لگایا”ہمارا میڈیا بک جاتا ہے جبکہ معاشرے کے اشرافیہ طبقے کو آسانی سے خرید ا جا سکتا ہے“۔
جنرل پاشا کے بیان سے غصے، اشتعال اور خود کو پارسا قرار دینے کی رویّے کی جھلک ملتی ہے۔ جب اُن سے عام زندگی میں میڈیا، حکومتی افراد یا دانشور حضرات کا آمنا سامنا ہوتا تو بھی وہ معمولی سے سوال اٹھانے پر اسی طرح بھڑک اُٹھتے تھے۔ وہ اس بات کی تفہیم کرنے سے قاصر تھے کہ پاکستانی میڈیا، سول سوسائٹی، جمہوری قدروں پر یقین رکھنے والے اور انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے مسلح اداروں، خاص طور پر آئی ایس آئی، پر کیوں تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کی حقیقت کو مسخ کر دیا ہے جبکہ حریف ملک بھارت میں دفاعی ادارے نظریاتی بوجھ اپنے کندھوں پر نہیں لیتے ہیں۔جنرل صاحب شاید اس بات کا ادراک کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ بھارت میں عوامی سطح پر جمہوری طریقے سے ریاست اور اس کے اداروں کا کردار اور حب الوطنی، قومی تحفظ اور قومی مفاد کے پیمانے طے کئے گئے ہیں ۔ بھارتی دفاعی اداروں نے اس ضمن میں کبھی بھی سول حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش نہیں کی ہے جبکہ ایسا کرتے ہوئے پاکستان کے دفاعی اداروں نے سول اور جمہوری ڈھانچے کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست کہلانے کے قریب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی میڈیا کے بہت سے دھڑے، جو جنرل پاشا کی طرف سے طے کئے گئے قومی سلامتی کے نظریئے پر سوال اٹھاتے تھے، جیسا کہ ”Friday Times“ اور جیو ٹی وی کے مشہور پروگرام ”آپس کی بات “ ،کو دیدہ و نادیدہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ پاشا صاحب کے دور میں صحافیوں پر جسمانی حملے بھی کئے گئے اور اُنہیں بلیک میل کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ اس سے اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ جن صحافیوں نے صحافی سلیم شہزاد کی ہلاکت پر آئی ایس آئی کو مورد ِ الزام ٹھہرایا تھا، کواس ادارے کی طرف سے کس قدر خوف کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر ایسے لوگ اس سے ڈرتے ہیں تو یہ بات تعجب خیز نہیں ہے۔ اسی طرح، میمو گیٹ کے حوالے سے جب جنرل پاشا نے ایک ناقابل ِ اعتبار پاکستانی نژاد امریکی شہری کی مشکوک شہادت پر یقین کرتے ہوئے واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کو منصب سے ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس اسکینڈل کی وجہ سے زرداری حکومت تقریباً ہل کر رہ گئی۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ بہت اہم موقع پر سامنے آئی ہے کیونکہ پرامن جمہوری انتقال ِ اقتدار کے نتیجے میں اقتدار سنبھالنے والی نواز شریف انتظامیہ ملک کو جمہوری راستے پر گامزن رکھنا چاہتی ہے۔ مشیر ِ خارجہ سرتاج عزیزاور وزیر ِ داخلہ چوہدری نثار سول اور ملٹری اداروں کے درمیان توازن پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی نے بہت ذہانت کا ثبوت دیتے ہوئے جنرل پاشا کے متنازع انداز کو بدلنے کی راہ اپنالی ہے۔ سول اور دفاعی افسران ، سب کو یہ رپورٹ پڑھنی چاہئے اور اس میں کی گئی سفارشات کو عملی شکل دینے کے کوشش کرنی چاہئے۔