ڈاکٹر جمیل جالبی
یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب بندوق ایجاد نہیں ہوئی تھی اور لوگ تیر کمان سے شکار کھیلتے تھے۔ ایک دن کچھ شکاری ،شکار کی تلاش میں جنگل میں پھر رہے تھے کہ اچانک ان کی نظر ایک ہرن پر پڑی۔ وہ سب اس کے پیچھے ہولیے۔ شکاری ہرن کو چاروں طرف سے گھیر رہے تھے اور ہرن اپنی جان بچانے کے لیے تیزی سے بھاگ رہا تھا۔ جب وہ بھاگتے بھاگتے تھک گیا تو انگور کی ایک گھنی بیل کے اندر جا چھپا۔ شکاریوں نے اسے بہت تلاش کیا، لیکن اس کا کچھ پتا نہیں چلا۔ آخر مایوس ہو کر وہ وہاں سے لوٹنے لگے۔
جب کچھ وقت گزر گیا تو ہرن نے سوچا کہ اب خطرہ ٹل گیا ہے اور وہ بے فکر ہو کر مزے سے اسی انگور کی بیل کے پتے کھانے لگا، جس میں وہ چھپا ہوا تھا۔ ایک شکاری جو سب سے پیچھے تھا، جب وہاں سے گزرا تو انگور کی بیل اور اس کے گچھوں کو ہلتے دیکھ کر سمجھ گیاکہ یہاں ضرور کوئی جانور چھپا ہے، اس نے تاک کے کئی تیر مارے۔
اتفاق سے ایک تیر ہرن کو جا لگا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ مرتے ہوئے ہرن نے اپنے دل میں کہا، ‘’اے بدبخت! تیری ناشکری کی یہی سزا ہے۔ مصیبت کے وقت جس نے تجھے پناہ دی، تو نے اسی پر ظلم ھایا۔” اتنے میں شکاری بھی وہاں پہنچ گئے۔ کیا دیکھتے ہیں وہی ہرن مرا پڑا ہے۔