• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قومی احتساب بیورو نے جمعہ کے روز سیکرٹری خزانہ بلوچستان کے گھر پر چھاپہ مار کر وہاں سے73کروڑ روپے کے نوٹوں کی گڈیاں اور ایک کلو سے زائد سونے کا جو خزانہ برآمد کیا، اس نے ہر شخص کو حیران اور ششدر کرکے رکھ دیا ہے۔ کرپشن کسی نہ کسی شکل میں ہر جگہ موجود ہے اور کوئی بھی ملک اس سے مکمل طور پر پاک ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا لیکن وطن عزیز پاکستان میں یہ جس طرح پورے معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے اس کا اعتراف تو ہر سطح پر کیا جاتا ہے اور بعض اوقات کرنسی نوٹوں کے ٹرک تک پکڑے جانے اور غیر معمولی مقدار میں کرنسی کے انبار لانچوں میں بھر کر سمندر پار ممالک میں پہنچائے جانے کی کہانیاں بھی سامنے آتی رہی ہیں لیکن چند دن کے شور شرابے کے بعد یہ ساری گرد اس طرح بیٹھ جاتی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے سیکنڈلوں کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے فالو اپ میں ہونے والی پیش رفت سے عوام کو آگاہ کیوں نہیں کیا جاتا اور ان معاملات کو ان کے منطقی انجام تک کیوں نہیں پہنچایا جاتا۔ سیکرٹری خزانہ بلوچستان مشتاق احمد رئیسانی کے گھر سے جو قارون کا خزانہ برآمد ہوا ہے اس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام (پی ڈی ایس پی) کے لئے مختص فنڈز سے غبن کیا گیا ہے اور چند روز کے بعد ہی اسے بیرون ملک بھجوانے کا بندوبست بھی کیا جارہا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس شخص نے یہ سارا مال تن تنہا ہی ہتھیایا ہوا تھا یا اس کے ساتھ کوئی دوسرے شریک ملزم بھی تھے۔ اب جبکہ فنانس ڈیپارٹمنٹ بلوچستان کا سارا ریکارڈ بھی نیب نے قبضے میں لے لیا ہے اور کرنسی سے بھرے ہوئے سوٹ کیس اور بیگ بھی ٹی وی پر دیکھا دئیے گئے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ کرپشن کی اس کہانی کو ادھورا نہ چھوڑا جائے بلکہ اس میں شامل تمام ذمہ داران کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر اس کے معاشرے اور خود احتسابی اداروں پر بڑے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
تازہ ترین