سید منیب علی
چاند ازل سے آسمان کی زینت رہا ہے اور رات کو راہ گیروں کو راہیں دکھاتا رہا ہے۔چاند، وجود میں آنے کے بعد سے زمین کے گرد محو گردش ہے، زمین کے گرد یہ اپنا ایک چکر 27 روز میں مکمل کرتا ہے، مگر پہلے وقتوں میں بیشتر افراد کا سوچنا تھا چاند گردش نہیں کرتا اور نہ ہی اپنے محور پر گھومتا ہے۔ یہ بات اس لئے کہی جاتی تھی، کیوں کہ چاند ہمیشہ اپنا ایک ہی رخ زمین کی طرف رکھتا ہے۔ لیکن کیا چاند کے نہ گھومنے والی بات حقیقی ہے؟ اس بات میں ذرّہ برابر بھی حقیقت نہیں ہے ،کیوں کہ ہمیں چاند کا ایک ہی رخ اس وجہ سے دکھائی دیتا ہے کہ چاند زمین کی کششِ ثقل کی وجہ سے آزادانہ طور پر گھوم نہیں سکتا۔
اِس حالت کو فلکیاتی اصطلاح میں ’’ٹائڈل لوکنگ‘‘، یعنی کشش کی وجہ سے کسی چیز کا ایک ہی حالت میں منجمد ہوجانا، کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو چاند 27 دنوں میں دونوں طرح کی گردش (محوری اور مداری) کرتا ہے۔ لیکن کیا زمین کے گرد چاند کا مدار ایک دائرے کی شکل کا ہے؟ جی نہیں! چاند کا مدار بیضوی شکل (یعنی انڈے کی شکل) کا ہے۔ تو اس طرح چاند اور زمین کا درمیانی فاصلہ ایک ماہ میں بتدریج بدلتا رہتا ہے۔
فلکیاتی علم کی رُو سے چاند کے مدار میں وہ مقام جہاں چاند زمین سے بہت کم دُوری پر آجاتا ہے، اسے ’’پیریگی ‘‘کہتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ مقام جہاں چاند اور زمین کا درمیانی فاصلہ سب سے زیادہ ہوجاتا ہے، اسے ’’اپوگی‘‘ کہتے ہیں۔ جب چاند اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے اس طرح کی ترتیب میں آجائے کہ سورج اس کے عین مقابل ہو تو اس حالت میں یہ زمین سے دیکھنے پر مکمل روشن دکھائی دیتا ہے اور اس چاند کو ’’پورا یا مکمل چاند‘‘کہا جاتا ہے۔
چوں کہ زمین خود بھی سورج کے گرد چکر لگا رہی ہے اس لئے ہر ماہ پورا چاند مدار میں مختلف مقامات پر ہوتا ہے اور ہر مقام پر چاند کا زمین سے فاصلہ مختلف ہوتا ہے۔ ان مختلف مقامات میں ’’پیریگی ‘‘اور ’’اپوگی‘‘ بھی شامل ہیں۔ قمری سال شمسی سال سے تھوڑا چھوٹا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ایک شمسی سال میں تقریبا 13 مکمل چاند دیکھے جاتے ہیں اور ان میں سے جو پورا چاند زمین کے سب سے قریب (یعنی پیریگی پر) ہوتا ہے، وہ باقیوں کے مقابلے میں بڑا نظر آتا ہے۔ اس چاند کو ’’سپرمون ‘‘کہا جاتا ہے۔
لیکن کیا ’’سپرمون ‘‘کوئی فلکیاتی اصطلاح ہے؟ جی نہیں! فلکیات میں سپرمون کو پیریگی پر ہونے والے مکمل چاند کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاتا۔تقریباً تیس سال پہلے 1979 میں رچرڈ نول، جو کہ ایک نجومی تھا، اس نے ’’سپرمون‘‘ کا لفظ پیش کیا اور اس کے مطابق: ’’سپرمون وہ نیا یا مکمل چاند ہے جو پیریگی کے مقام پر پیش آئے، جب چاند زمین سے قریب تَر ہو، اس وقت سپرمون ہوتا ہے‘‘۔ رچرڈ نے مزید کہا کہ ’’سپرمون کے وقت تباہی کا خدشہ بڑھ جاتا ہے اور اس سے زندگی میں تناؤ پیدا ہوتا ہے‘‘۔
آج ہم جانتے ہیں کہ چاند اور زمین کے درمیان اوسط فاصلہ 380000 کلومیٹر ہے لیکن یہ فاصلہ 357000 کلومیٹر(کم سے کم) اور 406000 کلومیٹر (زیادہ سے زیادہ) کے درمیان کم زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ سپرمون زمین سے کم فاصلے پر ہونے کی وجہ سے عام چودہویں کے چاند سے 14 فی صد بڑا اور تقریبا ً`30 فی صدزیادہ روشن ہوتا ہے۔ چاند کا دائروی قطر آسمان میں نصف درجے ہے اور عام آنکھ اس میں 14 فی صد کے فرق کو محسوس کرنے سے قاصر ہے ،اس لئے ہمیں دوربینوں کی مدد لینی پڑتی ہے۔ دوربین سے یہ فرق واضح ہو تا ۔
چاند کی کشش رائیگاں نہیں جاتی بلکہ زمین کی ایک طرف سورج اور ایک طرف چاند ہونے کی وجہ سے یہ دونوں اجسام زمین پر موجود سمندروں کو کھینچتے ہیں ،جس سے لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ سپرمون کے وقت چاند کے زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے چاند کی زمین پر لگنے والی طاقت میں 19 فی صد اضافہ ہو تا ہے ،جس کی وجہ سے لہروں میں تیزی آ جاتی ہے۔ ماہر ارضیات کا کہنا ہےکہ اس وجہ سے سیلاب کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
متعدد لوگوں کا ماننا ہے کہ سپرمون کی وجہ سے زمین پر زلزلے بھی آتے ہیں لیکن ابھی تک سیلاب اور زلزلوں کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ کچھ واقعات ماضی قریب میں ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں جن سے سیلاب اور زلزلوں والی پیشگوئی درست ثابت کی جاسکتی ہے۔ مثلاً، چند سال قبل 14 نومبر کو نیو زی لینڈ میں 7.5 کی شدت کا زلزلہ محسوس کیا گیا اور اسی روز سپرمون بھی تھا!! مگر زلزلے آنے کی اور بھی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں اس لئے صرف سپرمون کو ہی وجہ نہیں کہا جاسکتا۔ بہرحال، افواکاروں نے سپرمون کے نام سے دنیا کو ڈرایا ہوا ہے لیکن درحقیقت ڈرنے کی بات نہیں ہے، کیوں یہ ایک عام سی بات ہے اور ہر سال سپرمون واقع ہوتا ہے۔