• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کئی حالیہ کُتب نے عالمی طاقت کے ذرائع اور مراکز کی فطرت اور نتائج میں آنے والی حالیہ تبدیلیوں کا مفید طور پر جائزہ لیا ہے۔ مغرب کے زوال سے لے کر دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے مابین غلبے کے معرکے اور (جی- زیرو) کے تصور جس کے مطابق دنیا میں کوئی بھی عالمی طاقت غالب نہیں ہوتی، دنیا جس سمت کی جانب بڑھ رہی ہے اس حوالے سے نقطہ نظر میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ مصنفین اس حقیقت کی نوحہ خوانی کرتے ہیں کہ مغرب کی طاقت کا دور گزرچکا ہے۔ دیگر مصنفین باقیوں کے عروج کی خوشی مناتے ہیں۔ چونکہ بین الاقوامی نظام کثیر کتبہ بن رہا ہے، کئی ایک کو انتشار کا اندیشہ ہے۔ اسکالزر کے مطابق عالمی سیاست رجائیت پسندوں اور قنوطیت پسندوں میں منقسم ہوتی نظر آتی ہے، ان کے درمیان اس حوالے سے کم ہی اتفاق پایا جاتا ہے کہ آیا دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی غیر معمولی تبدیلیاں اسے کم مستحکم کریں گی یا زندہ دلی پیدا کریں گی یا انسانی تہذیب کیلئے تاریخ کا سب سے زیادہ مددگار دور مرتب کریں گی۔ کشور ماہ بوبانی نے اس بحث کو ایک رجائیت پسند کے طور پر اختیار کیا ہے لیکن حالیہ چیلنجز ان پر واضح ہیں۔ ان کی نئی کتاب ’دی گریٹ کنورجنس‘ ان کی گزشتہ کُتب کی طرح بصیرت شعار ہے جو کہ ایشیاء کے عروج کا مطالعہ کرتی ہے اور طاقت کی ازسرنو تشکیل کی عالمی بحث میں ایشیائی نقطہ نظر پیش کرتی ہے۔دنیا کی انتظام کاری اس موجودہ پیچیدہ دور میں کس طرح ہونی چاہئے، ان کی گزشتہ کتاب پہلے ہی اس حوالے سے مباحثوں کی تجدید کرچکی ہے۔ ماہ بوبانی مغربی اقوام سے جغرافیائی سیاسی حکمت کا مطالبہ کرتے ہیں جو کہ فرسودہ طرز خیال سے چمٹے ہوئے ہیں لیکن انہیں طاقت بانٹنی چاہئے تاکہ بین الانحصاری دنیا کے ساتھ قدم ملاسکیں، جہاں ان کا حلقہ اثر سمٹ رہا ہے۔ عالمی اداروں میں اپنا غلبہ جاری رکھنے کی کوشش کے نتیجے میں ان کی قانونی حیثیت زائل ہوجائے گی اور بین الاقوامی شورش کا موجب بنے گی۔
سنگاپور میں تدریسی شعبے سے تعلق رکھنے والے سابق سفیر جنہوں نے اقوام متحدہ میں بھی اپنے ملک کی نمائندگی کی، وہ دنیا میں گہری تبدیلی وقوع پذیر ہونے کی دل موہ لینے والے منظر کشی پیش کرتے ہیں۔ وہ مثبت سوچ کی حدود سے اپنا آغاز کرتے ہیں کہ دنیا میں آخری تین عشروں میں گزشتہ تین صدیوں سے زیادہ بہتر تبدیلی آئی ہے۔ انہوں نے کئی رجحانات کی نشاندہی کی جس میں غربت میں کمی، کم جنگیں، تعلیم کا فروغ، عالمی سطح پر متوسط طبقے میں اضافہ اور قدرے کم عدم مساوات پر مبنی دنیا ابھر کر سامنے آنا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ایشیاء جلد ہی دنیا میں سب سے بڑا متوسط طبقے کا حامل بن جائے گا۔ ان رجحانات کا مطلب ہے کہ اب دنیا بھر میں اچھی اور پرسکون زندگی گزارنے والوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے۔
ماہ بوبانی دنیا میں عالمگیریت کو ایک بین الانحصاری اور ایک دوسرے سے منسلک ہونے کے طور پر نہیں دیکھتے بلکہ اسے واحد متحرک دنیا کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ اختلافات کے باوجود عالمی معاشرہ ان ضابطوں پر متفق ہوچکا ہے کہ کس طرح بہتر معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ ان کی کتاب کا موضوع ’گریٹ کنورجس‘ کا مطلب بھی یہی ہے، جس میں مغرب(دنیا کی 12 فیصد آبادی) کے معیار زندگی کے باقی دنیا( دنیا کی 88فیصد آبادی) کے معیار زندگی کے ساتھ ملاپ کی عکاسی ہو رہی ہے۔ یہ مفادات کا، تصورات اور آرزووٴں کے ملاپ سے بھی نظر آتاہے اور حقیقت یہ ہے کہ اب شہری واحد معلوماتی کائنات میں سانس لیتے ہیں۔ ماہ بوبانی استعارةً ایک کشتی کو واحد دنیا کی حقیقت کے طور پر بیان کرتے ہیں، دنیا کے شہری نامعلوم پانیوں میں ایک ہی کشتی میں تیر رہے ہیں لیکن ان کے کیبنز علیحدہ ہیں اور کپتان کوئی نہیں ہے۔
ان کی اصل تشویش عالمی حکمرانی کے اداروں کی اس مرتکزیت کے ساتھ قدم ملانے کی قابلیت نہ ہونا ہے، ان کی رائے سادہ اور مدلل ہے، اگر دنیا تبدیل ہو چکی ہے تو ہماری جانب سے اس کی انتظام کاری کا طریق بھی تبدیل ہونا چاہئے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری قومی نظام اپناکر اور عالمی تنظیموں میں اصلاحات کرکے مرتکزیت کی جانب بڑھتے ہوئے عالمی تحرک سے فیضیاب ہوں۔ واحد دنیا کے محرک کو نہ تو روکا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ واپسی کی جانب گامزن ہوسکتا ہے لیکن پالیسی ساز ابھی تک 19ویں صدی کے خیالات کی طرز پر کارفرما ہیں۔ یہ عالمی مسئلے کو عالمی سطح پر حل ہونے سے روکتا ہے۔ ان کے مطابق نئے خیالات کا مطلب ہے کہ مشترکہ مفادات میں سرگرداں ہونے کیلئے قومی مفادار اور عالمی جائزہ میں توازن پیدا کیا جائے۔وہ آنے والی رکاوٹوں منتشر کرنے والے واقعات کو کم نہیں کرتے اور پوچھتے ہیں کہ آیا جغرافیائی سیاست عالمی ملاپ کو پٹڑی سے اتار دے گی۔ وہ اس کا جواب تعاون اور مسابقت کے دو متضاد رجحانات کا جائزہ لے کر دیتے ہیں جو کہ آج مشترکہ طور پر اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہیں۔ پھر وہ دنیا کے مشکل ترین جغرافیائی سیاسی چیلنجوں کی نشاندہی کرتے ہیں،جس میں چین، امریکہ تعلقات۔ چین، بھارت تعلقات اور اسلام اور مغرب کے درمیان موجود خلیج شامل ہے۔ وہ ان کے مستقبل کی خط حرکت کے بار ے میں پُرامید رہے کیونکہ تصادم سے زیادہ فائدہ تعاون کرنے میں ہے لیکن ان میں سے تمام تعلقات کو ہم آہنگی اور مسئلہ حل کرنے کا رویہ درکار ہے۔ بعد ازاں وہ فلسطین، اسرائیل مسئلے اور ایرانی مسئلے کے منصفانہ حل پر زور دیتے ہیں۔ کُتب کا بنیادی نکتہ یہ جائزہ ہے کہ کیونکر عالمی حکمرانی کی تنظیمیں کمزور اور خراب ہیں جبکہ دنیا کا مشترکہ مفاد انہیں مستحکم کرنے سے وابستہ ہے۔ یہ خود بخود ہوا یا جان بوجھ کر کیا گیا، ماہ بوبانی کو یقین ہے کہ یہ پہلا ہے، وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ مغربی اقوام نے کثیرالقومی اداروں کو کمزور رکھا ہوا ہے۔ وہ اپنے غلبے کو ان اداروں کیلئے چھوڑنے پر رضامند نہیں ہیں۔ یہ سب اس حقیقت سے بھی عیاں ہے کہ آج صرف ایک یورپی ہی آئی ایم ایف کا سربراہ بن سکتا ہے اور ایک امریکی ہی عالمی بینک کی باگ ڈور سنبھال سکتا ہے۔ماہ بوبانی کہتے ہیں کہ اسٹراس کاہن اسکینڈل کے بعد مستعدی سے فرانسیسی جانشین کی تقرری مغربی زعم کی عکاس ہے۔ کئی بین الاقوامی تنظیموں میں یورپ کی نمائندگی ضرورت سے زیادہ ہے لیکن ماہ بوبانی کی اصل توجہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل پر موکوز ہے جہاں دنیا کی12 فیصد آبادی دنیاکی سب سے طاقتور سیاسی تنظیم کی60 فیصد نشستوں کو کنٹرول کرتی ہے۔وہ دلیل دیتے ہیں کہ جب مغربی غلبے کا دور خاتمے کی جانب گامزن ہے تو پھر بیتے دور کی پالیسیاں اور روایات کا بھی خاتمہ ہوجانا چاہئے۔ چونکہ مغرب کا حصّہ عالمی جی این پی اور آبادی میں گھٹ گیا ہے اسے چاہئے کہ وہ عالمی تنظیموں میں طاقت کو بانٹنا سیکھے، اسے عالمی تنظیموں کو مستحکم کرنے کی مخالفت بھی بند کردینی چاہئے۔
ماہ بوبانی خامہ فرسائی کرتے ہیں کہ امریکہ اپنے ملک میں جمہوریت پر عمل پیرا ہے مگر بیرونی دنیا میں عالمی تنظیموں کے جمہوری طرز پر منظم کرنے کی مخالفت کرتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اگر اس بات کی تذویری تعبیر بھی میسر آجائے کہ عالمی تنظیموں کو کمزور رکھا جائے، وہ اس کا بذات خود ہی دفاع کرسکتا ہے، لیکن ایسے ماحول میں ہر گز نہیں کرسکتا جہاں زیادہ تر مسائل کو حل کرنے کیلئے کثیرالقومی اشتراک درکار ہے۔ ماہ بوبانی کہتے ہیں کہ جیسے جیسے دنیا مرتکزیت کے دور میں داخل ہورہی ہے، یہ مغرب کیلئے ضروری ہے کہ وہ بین الاقوامی تنظیموں کو مستحکم کرنے کے روشن خیال طویل مدتی مفادات پر قلیل مدتی مفادات کو ترجیح دینے کی غلطی کا ازالہ کرے۔وہ اقوام متحدہ کے نظام میں اصلاحات کے لئے باعمل تجاویز پیش کرتے ہیں اور اصلاحات کے کلیدی اصولوں کی نشاندہی اس طرح کرتے ہیں کہ قانون کی بالادستی سے طاقت کے عدم توازن کو متوازن بنایا جاسکتا ہے۔ اصلاحات کی یہ صدا عالمی نظام کی بہتری کیلئے تجاویز بھی پیش کرتی ہے، جس میں لوگوں کو قریب لانے کیلئے عالمی سطح پر بات چیت کی حوصلہ افزائی، اشتباہ تاریخی سے متعلق پالیسیوں کا خاتمہ اور عالمی ضابطہ اخلاق مرتب کرنا شامل ہیں۔ یہ واضح کتاب ان کے لئے ہے جوطاقت کی جاری دور رس تبدیلوں کو سمجھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور جو یقین رکھتے ہیں کہ دنیا کی انتظام کاری کیلئے مستحکم نمائندگی والی تنظیم کی ضرورت ہے۔ ماہ بو بانی دکھاتے ہیں یہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔ کتاب کے عظیم تر پیغام کے علاوہ دوسرے مضامین پر یہ ہدایات سے بھرپور مباحثہ ہے جیسے بیرونی امداد۔ ماہ بوبانی نے یہ نتیجہ پیش کرنے کیلئے کہ امداد لینے والوں کو کم دینے والوں کو زیادہ فائدہ دیتی ہے، کئی تدریسی مثالوں کا حوالہ دیا ہے۔انہوں نے مغربی امداد کرنے والے اداروں کے ذاتی مفاد اور غرور کو برہنہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ خیر خواہی پر مبنی نہیں جیسا کہ مغربی این جی اوز اور میڈیا کی جانب سے پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔
ایشیاء اور مغربی اذہان کے مابین فرق کے حوالے تصوراتی بحث بھی ہوتی ہے، ان کے مطابق مغربی ایک کارٹیزن ڈھانچے کے مطابق کام کرنے کی جانب مائل ہوتے ہیں اور دنیا کے حوالے سے سیاہ اور سفید نظریہ رکھتے ہیں یعنی ایک طرف سچائی اور دوسری جانب جھوٹ ہے جبکہ ایشیائی ذہن تضادات اور متناقضات کو بآسانی قبول کرلیتاہے یعنی دونوں متضاد اطراف درست ہوسکتی ہیں۔ماہ ہو بانی کی رجائیت پسندی کی توسیع پاکستان تک ہوتی ہے، جسے وہ اسلامی قوم کی نظیر کے طور پر سمجھتا ہے، جس نے چیلنجوں کے درمیان ہوتے ہوئے بھی حاکمیت میں سے حاکمیت قائم کرنے کی کوشش کی۔ وہ ایک اور پہلو پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی مسلمان ملک کی آبادی اتنی قابل نہیں جتنی پاکستان کی ہے اور یہ حقیقت خود ایک حقیقی امید ہے کہ پاکستان خود خوشحال ہوکر جدت حاصل کرے گا۔
تازہ ترین