• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور منصوبے پر میں کئی کالم تحریر کرچکا ہوں اور پاکستان کے اس اہم قومی منصوبے پر مختلف زاویوں سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے لیکن منصوبے کی آنے والی تفصیلات کی روشنی میں ہمیں پاکستان کے مفادات کا تحفظ بھی یقینی بنانا ہوگا۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے لاہور کے اجلاس میں، میں نے پورے ملک سے چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کے نمائندوں کو مشورہ دیا تھا کہ پاکستان کی بزنس کمیونٹی کی اپیکس باڈی FPCCI اس منصوبے کی اونر شپ لیتے ہوئے ایک اعلیٰ سطح کمیٹی بنائے جو اس منصوبے کے راستے میں رکاوٹوں اور دی جانے والی مراعات کا جائزہ لے کر حکومت کو سفارشات پیش کرے جس سے سی پیک منصوبے سے مقامی صنعت و تجارت متاثر نہ ہو۔ مجھے خوشی ہے کہ فیڈریشن کے صدر عبدالرئوف عالم نے میری تجویز پر اپنی سربراہی میں 13رکنی اعلیٰ سطح کمیٹی تشکیل دی جس میں میرے علاوہ سینئر نائب صدر خالد تواب، زبیر طفیل، عارف حبیب، سینیٹر غلام علی، سینیٹر عبدالحسیب خان، سلطان چائولہ اور اسٹیٹ بینک کے نمائندوں سمیت دیگر اراکین شامل ہیں۔ اس کمیٹی کے اب تک کئی اجلاس ہوچکے ہیں جس میں ایسے اہم معاملات سامنے آئے ہیں جن کا حکومت کو نوٹس لے کر احتیاطی تدابیر اختیار کرنا چاہئے۔ میں آج کے کالم میں CPEC پر مقامی بزنس کمیونٹی کے کچھ تحفظات اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔
سی پیک کی اعلیٰ سطح کمیٹی کے اجلاسوں میں سی پیک منصوبے کیلئے بغیر کسٹم ڈیوٹی خام مال اور چینی ورکرز کی امپورٹ، مشرقی و مغربی روٹ اور بلوچستان کی مقامی آبادی کے روزگار پر تحفظات، بھارت اور اسکے اتحادیوں کی منصوبے کیخلاف سازشیں، توانائی کے منصوبوں کیلئے پلانٹ اور مشینری کی امپورٹ ایل سیز کیلئے زرمبادلہ کی فراہمی، سی پیک منصوبوں میں مقامی سرمایہ کاروں کی ایکویٹی میں لازماً سرمایہ کاری، منصوبوں کی شفافیت اور سیکورٹی جیسے تحفظات فیڈریشن نے حکومت کو پیش کئے ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان اور چین کے مابین آزاد تجارتی معاہدہ (FTA) ہے جسکے تحت دونوں ممالک ڈیوٹی فری امپورٹ ایکسپورٹ کررہے ہیں اور اس وقت پاک چین تجارتی حجم 12.5ارب ڈالر ہے جس میں چین سے امپورٹ 10.4ارب ڈالر اور ایکسپورٹ 2.1 ارب ڈالر ہے۔ اس طرح ایکسپورٹ سرپلس چین کے حق میں ہے۔ سی پیک کے 46 ارب ڈالر کے منصوبوں میں 34 ارب ڈالر توانائی کے منصوبے اور 12ارب ڈالر انفرا اسٹرکچر کے منصوبے شامل ہیں۔انفرا اسٹرکچر منصوبوں کیلئے چین نے پاکستان کو ECA کریڈٹ دیا ہے جس کے تحت پاکستان ان منصوبوں کیلئے گڈز اور خدمات چین سے امپورٹ کرنے کا پابند ہے جس پر مقامی ورکرز اور مینوفیکچررز کو تحفظات ہیں لیکن انرجی کے منصوبوں کیلئے چینی حکومت قرضے فراہم نہیں کررہی بلکہ ان منصوبوں کیلئے چین کے بڑے بینک CDB، ICBC اور CIDB کے علاوہ IFC، CDC، OPEC، ADB اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی ادارے سرمایہ کاری فراہم کررہے ہیں۔ فیڈریشن میں ہونیوالی میٹنگ کے دوران میں نے گورنر اسٹیٹ بینک سے پوچھا تھا کہ کیا اسٹیٹ بینک سی پیک کے انرجی منصوبوں کیلئے پلانٹ اور مشینری امپورٹ کرنے کیلئے مطلوبہ زرمبادلہ فراہم کرسکتا ہے یا پلانٹ اور مشینری کے امپورٹرز کو فارن کرنسی لون لینا پڑیں گے؟ گورنر اسٹیٹ بینک نے زرمبادلہ کے موجودہ وسائل کے پیش نظر فارن کرنسی لون کی تجویز کا خیر مقدم کیا۔ سی پیک کے انرجی منصوبوں کا پہلا فیز "Early Harvest" 2018 تک مکمل ہوجائے گا جس سے تقریباً 10,400 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں داخل ہونے سے حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملک میں لوڈشیڈنگ ختم ہوجائیگی۔اس منصوبے میں کوئلے، ہوا، شمسی اور ہائیڈرو کے مختصر المیعاد 15.5ارب ڈالر کے تیز رفتار منصوبے شامل ہیں جبکہ انرجی کے 18.3ارب ڈالر کے طویل المیعاد منصوبے 2021ء تک 6,120میگاواٹ بجلی پیدا کرسکیں گے اور اس طرح آئندہ 7سالوں میں 16,520 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کی جاسکے گی۔
گزشتہ ہفتے فیڈریشن کے صدر کی سربراہی میں سی پیک کی اعلیٰ سطح کمیٹی کے اجلاس کے دوران میں نے تجویز دی تھی کہ سی پیک منصوبوں میں مقامی سرمایہ کاروں کو لازماً کچھ حصہ ایکویٹی (کیپٹل) کا دیا جائے کیونکہ بیرونی سرمایہ کاروں کی 100% ایکویٹی کی صورت میں ہر سال اربوں ڈالر منافع اور ڈیوڈنڈ کی شکل میں ملک سے باہر بھیجنا پڑے گا جس سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر ہمیشہ دبائو رہیگا۔ CPEC کمیٹی کے ممبر عارف حبیب نے مشورہ دیا کہ ان منصوبوں میں 20% سے 25% تک ایکویٹی پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے سرمایہ کاروں کو پیشکش کی جاسکتی ہے جو ان منصوبوں میں مقامی سرمایہ کاری کے طور پر ہوگی اور ان کے منافع اور ڈیوڈنڈ کو ملک سے باہر بھیجنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے اطراف حکومت نے 20 اسپیشل اکنامک زونز قائم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اس سلسلے میں لگنے والی صنعتوں کیلئے دی جانے والی ڈیوٹی اور ٹیکس فری مراعات کا اعلان نہیں کیا گیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نجی شعبے اور مقامی صنعت کو اعتماد میں لے کر حکومت جلد از جلد اسپیشل اکنامک زونز کیلئے مراعات کا اعلان کرے۔ سی پیک کے منصوبے پر فیڈریشن کے درج بالا تحفظات کے پیش نظر وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اسلام آباد میں سی پیک کے اہم اجلاس میں میرے علاوہ فیڈریشن کے صدر اور سی پیک کمیٹی کے دیگر اراکین کو شرکت کی دعوت دی ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ سی پیک منصوبہ حکومت کے وژن 2025ء اور MTDF کا حصہ ہے۔ چین کی انتظامیہ نے پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ وہ سی پیک منصوبوں سے پاکستان میں ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا چاہتے ہیں اور چین کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان کی مقامی صنعت اور ورکرز کا مفاد متاثر ہو۔
پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کے حوالے سے مختلف ٹی وی اور اخبارات میں یہ بیانات سامنے آئے ہیں کہ چین سرمایہ کاری کے نام پر پاکستان کو اونچی شرح سود پر قرضے دے رہا ہے۔ میں یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ چین کی یہ پالیسی نہیں ہے کہ وہ ممالک کو قرضے دے بلکہ چین منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ پاک چین معاشی راہداری کے منصوبوں میں چینی کمپنیاں جن میں کچھ چین کی سرکاری کمپنیاں بھی شامل ہیں، پاکستان میں ان منافع بخش منصوبوں میں سرمایہ کاری کررہی ہیں جنہیں چینی بینک قرضے فراہم کررہے ہیں اور حکومت پاکستان نے ان کمپنیوں کے منافع کی گارنٹی دی ہے۔ مثال کے طور پر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کو ان کی ایکویٹی سرمایہ کاری پر 27% حاصل ہوگا۔اسی طرح ہوا سے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی ایکویٹی سرمایہ کاری پر 17% منافع حاصل ہوگا۔ چین نے پاکستان سے اپنی دوستی نبھاتے ہوئے سی پیک کی شکل میں پاکستان کی معاشی قسمت بدلنے کیلئے ایک بہترین موقع فراہم کیا ہے جو پاکستان کیلئے گیم چینجر ثابت ہوگا لہٰذا حکومت، نجی شعبے اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری ہے کہ اس منصوبے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے اس قومی منصوبے کو مقررہ مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔
تازہ ترین