• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ماہرین، محققین، مورخین اور ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیںکہ پرانا ورلڈ آرڈر مکمل طور پر اپنی حیثیت کھو چکا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ کے عروج کو پر لگنا شروع ہوئے۔ بہت سے مغربی ممالک اس نئی ابھرتی ہوئی طاقت کےگرد منڈلانے لگے۔ امریکہ جمہوری اور سرمایہ دارانہ دنیا کے رہنما کے طور پر ابھرا۔ یہاں تک کہ مذہبی حلقوںکا جھکائو بھی امریکہ کی طرف ہوگیا، ویٹی کن نے بھی اسے خدا کی طرف سے مقرر کردہ مقدس رومی سلطنت کا متبادل تسلیم کر لیا۔ برطانیہ نے دوبارہ امریکہ سے روابط بحال کیے اور تعلقات کی تجدید کر کے امریکی تسلط کے کھیل میں ایک پیادہ بن گیا۔ امریکیوں نے کمیونسٹ اقوام کے خلاف سرد جنگ چھیڑ دی، جس نے بالآخر سوویت یونین کو تباہ کر دیااور دنیا یونی پولر سپر پاور کے زیر اثر آگئی۔80، 90 اور 2000 کی دہائیوں تک امریکیوں نے اپنی معاشی اور قومی طاقت کے عروج کو چھوا۔ ویتنام، عراق اور افغانستان کے غیر ضروری بکھیڑوں کے باوجود امریکی سر فہرست رہے۔ اس وقت دنیا کا رُخ بدلا ہوا تھا، چین نے پہلے شکست خوردہ کمیونسٹ فلسفہ کے جھنڈے تلے پناہ لی۔ چینی کنفیوشس اور سن ژو کے نظریات کے تحت سوشل کمیونسٹ رول کا وژن لے کر عالمی سطح پر ابھرے ۔ دو دہائیوں میں بازی پلٹ گئی۔ چین امریکہ کے ورلڈ آرڈر کو پیچھے چھوڑنے کے لئے تیار ہے لیکن ابھرتی ہوئی دوسری طاقتیں بھی منظر نامے پرموجود ہیں۔چین کے عروج کی سب سے نمایاں وجہ اس کی عدم مداخلت اور عدم تشدد کی پالیسی ہے۔ چین کی داخلی لڑائیوں اور تباہی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ بہت سے چینی قبائلی حکمرانوں نے صدیوں تک ایک دوسرے سے جنگیں لڑیں اور چین کی ترقی کو جامد کیے رکھا لیکن پھر بھی، چین تشدد اور جنگ کے خلاف ہے لیکن کیاچین پرامن ذہنیت کے ساتھ عالمی تسلط کی راہ پر گامزن رہ سکتا ہے؟ اس کا جواب عالمی مسائل اور کمزور اور طاقتور کے بنیادی فرق میں پوشیدہ ہے۔

امریکیوں کا مستقل عروج رہا ہے لیکن اب یہ واضح زوال کا شکار ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت سے دنیا کو پتہ چل گیاتھا کہ امریکہ اب عالمی قیادت کرنے کے قابل نہیں رہااور امریکی بنیاد پرست بن چکے ہیں۔ انہوں نے ذاتی تحفظ کے لئے دنیا کے امن، سلامتی اور آزادی کو شدید نقصان پہنچایا۔ پینٹاگون میں موسمیاتی تبدیلی سے انکار کرنے والے واشنگٹن نے موسمیاتی تبدیلی کوسب سے زیادہ متاثر کیا۔ ٹرمپ کا خیال تھا کہ آب و ہوا کی تبدیلی جیسی کوئی چیز نہیں ہے ۔ وائٹ کرسچن بالادستی کے نظریے نے امریکہ کو تقسیم کیا۔ کالوں، ہسپانویوں، مسلمانوں اور دوسرے تارکین وطن کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا گیا جو جدید جمہوریتوں کو زیب نہیں دیتا۔ اس کے اثرات دور رس ثابت ہوئے جس نے یقینی طور پر وائٹ ہاؤس کی طاقت کو غیر مستحکم کیا ۔ امریکہ اب جمہوریت اور آزادی کا چیمپئن نہیں رہا جو غیر منطقی فیصلوں سے اسرائیل جیسی قوموں کی حمایت کرتا ہے۔ اسرائیل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی بھر پور خلاف ورزی کرتارہا ہے۔ امریکیوں نے اپنے انحراف شدہ رہنما اصولوں پر عمل کیا تھا توسپر پاور بنے تھے۔ طاقت اور کساد بازاری نے جرمنی، برطانیہ اور اٹلی جیسی یورپی اقوام کوپہلے ہی چینی روسی بلاک کی طرف دیکھنے پر مجبور کیا تاکہ دوطرفہ تعلقات کے ذریعے اپنی معیشت کو بچایا جاسکے۔ یورپ اب امریکہ کا سیٹلائٹ نہیں ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ مستقبل میںمزید ممالک اس بلاک میں شامل ہوںگے۔ہندوستان اور ترکی جیسی اقوام بھی ٹھوس پیشرفت پر غور کر رہی ہیں۔ ہندوستان ابھی تک مغرب کے زیر اثر ہے۔ وہ امریکہ اور برطانیہ کو اپنا رول ماڈل مانتا ہے۔ بھارت یکساں طور پر اپنی پالیسیوں اور قوم پرستی کونہیں چلا سکتا، ہندوستان نوآبادیاتی دورکے بعد تفرقہ بازی کی سیاست سے دوچار ہے جو اس کے تسلط کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ہندوستان کو اپنی ثقافت، آبادی اور مارکیٹ کی صلاحیت کی بدولت نمایاں حیثیت ضرور حاصل ہے لیکن یہ غیر معمولی طاقت نہیں ہے۔ ترکی صحیح سمت میں آگے بڑھ رہاہے۔ اس نے اپنے قومی اداروں کو مستحکم کیا ہے۔ اس نے فوج بمقابلہ جمہوریت اورحکمرانی کی پیچیدگیوں کو دور کیا ہے۔ اردوان حکومت نے معاشی حالت بہتر بنائی، سفارتی تعلقات کو بڑھایا اور معاشرتی شعبوں میں قوم پرستی کو فروغ دیا ہے، ایسی حکمت عملی اپنائی ہے جس کے متعدد پہلوؤںسے نتائج امید افزاہوں گے ۔

امریکیوں کو بنیادی طور پر جغرافیائی سیاست کے کاروباری کہا جاسکتا ہے۔ ان کے لئے جنگ بھی ایک کاروبار ہے جس کا منافع پوری قوم کو چلاتا ہے لیکن اس کے برعکس چین اجتماعی فوائد پر یقین رکھتا ہے۔ اس نے دنیا کے سرمایہ داروں کو شکست دینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ چین نے دنیا بھر سے وسائل خرید کر، ان وسائل سے سستی مزدوری کی بدولت مصنوعات دنیا بھر میں فروخت کر کے کامیابی کے ساتھ اپنی مہارت اور آبادی کا فائدہ اٹھایا ہے ۔ چین کی طاقت مستقل طور پر بڑھ رہی ہے جسے وہ مزید بڑھانے کے لئے اقدامات کر رہا ہے۔ اس نے لداخ میں ہندوستان کی دھمکیوں کا جارحانہ انداز میں جواب دیا اور امریکی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے بحرالکاہل میں قابل ذکر فورسز کو تعینات کیا ۔ اس کے باوجود کہ تائیوان اور ہانگ کانگ سے متعلق اقوام متحدہ میں اس کے خلاف سخت حکمت عملی اختیار کی گئی ،چین متوازن رد عمل کی عمدہ مثال پیش کرتا رہا ۔ نیو ورلڈ آرڈر اور ایک نئی سپر پاورابھرنے کو ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ دنیا کی نئی سپر پاور لالچ، دولت اور طاقت کی ہوس کے لئے کی جانے والی تباہی کی بجائے اپنے وژن اور انسان دوست ایجنڈوں میں اجتماعی پیشرفت کے ساتھ غلبہ حاصل کرے گی۔

(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین