افغانستان میں اتحادی افواج کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی ممکنہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے قومی سلامتی کے ذمہ دار ہمارے اداروں نے یقیناً ایک موثر حکمت عملی وضع کر لی ہو گی ۔ اس مرتبہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے حالات بہت بہتر ہیں بشرطیکہ ہم اپنی پالیسیوں کو درست کر لیں۔
جیسے جیسے افغانستان سے اتحادی افواج نکل رہی ہیں ۔ ویسے ویسے طالبان کی وہاں پیش قدمی بڑھتی جا رہی ہے لیکن اب طالبان وہ نہیں رہے ، جو نائن الیون سے چند سال پہلے اور نائن الیون کے چند سال بعد تھے ۔ پہلے والے طالبان دنیا سے الگ تھلک ہو کر اپنی کارروائیاں کرتے تھے اور انہیں اس بات کی پروا نہیں ہوتی تھی کہ دنیا ان کے بارے میں کیا سوچ رہی ہے ۔ ایسا کرنے کے لیے انہیں کہیں سے وسائل بھی میسر تھے اور خود امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے بھی طالبان کا یہ رویہ فائدہ مند تھا کیونکہ طالبان انہیں اس خطے میں فوجی موجودگی کا جواز فراہم کر رہے تھے ۔ اب صورت حال مختلف ہے ۔ اگرچہ بعض حلقوں کی اس رائے میں وزن ہے کہ افغانستان سے انخلاکی امریکی پالیسی اس کے نیو ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے تاکہ افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہو اور اس خطے میں بدامنی کے ذریعے چین کی پیش قدمی کو روکا جا سکے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان نے الگ تھلگ رہنے والی اپنی سابقہ پالیسی ترک کر دی ہے ۔ خطے کے ملکوں کے ساتھ انہوں نے اپنے روابط استوارکر لیے ہیں ۔ اگلے روز طالبان کے ایک وفد نے ملا برادر کی قیادت میں اپنے دورۂ چین میں چینی وزیر خارجہ سے ملاقات کی اور افغانستان سمیت خطے کے امن پر تبادلہ خیال کیا ۔ اس سے پہلے طالبان کا وفد ایرانی وزیر خارجہ سے بھی ملاقات کر چکا ہے ۔ جب امریکا طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا تھا تو روس بھی طالبان کے مختلف گروہوں کو مذاکرات میں انگیج ( Engage ) کیے ہوئے تھا ۔ روس کو ایران اور چین سمیت مختلف ملکوں کی حمایت حاصل تھی ۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ طالبان اپنی پرانی ڈگر پر آ سکتے ہیں ،مگر اب ان کے لیے یہ بہت مشکل ہو گا ۔ ’’ ٹرائیکا پلس ‘‘ جیسے فورم کے ساتھ ساتھ کئی فورمز کے ذریعہ طالبان کو انگیج کر لیا گیا ہے اور طالبان خود بھی ایسا چاہتے ہیں کہ سفارت کاری کا راستہ اختیار کرکے وہ اپنے آپ کو تسلیم کرائیں اور اپنا امیج بہتر بنائیں ۔ روس ، چین ، ایران اور دیگر ممالک طالبان کے ساتھ شاید اس لیے مذاکرات کر رہے ہیں کہ وہ طالبان کو افغانستان کی آئندہ حکومت میں دیکھ رہے ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ پاکستانی طالبان کو افغانستا ن میں افغان طالبان کی حکومت سے تقویت ملے گی اور وہ پاکستان میں مسائل پیدا کر سکتے ہیں ۔ لیکن انہیں بھی افغان طالبان کی طرح خطے کے دیگر ممالک کے ذریعہ مذاکرات میں انگیج کیا جا سکتا ہے۔
دوسری اچھی بات یہ ہے کہ پاک افغان سرحد کو باڑ لگا کر بہت حد تک محفوظ بنا لیا گیا ہے ۔ اب دونوں طرف کے طالبان کی سرحد پار سرگرمیاں یا آمد و رفت آسان نہیں رہےگی ۔ بارڈر مینجمنٹ کو بہتر بنا کر اور دیگر سکیورٹی اقدامات سے اس صورت حال سے بچا جا سکتا ہے جو کچھ عرصہ قبل تھی ۔ تیسری اچھی بات یہ ہے کہ قبائلی علاقہ جات میں بھی پہلے والے حالات نہیں رہے ۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے ( فاٹا ) اور صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقے ( پاٹا) صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہو چکے ہیں ۔ یہ علاقے پاکستان کے آئینی دائرے میں آ گئے ہیں اور وہاں پاکستان کے دستور اور قوانین کی عمل داری ہو گئی ہے ۔ وہ اب علاقہ غیر نہیں رہے ، جہاں صوبے کی سول انتظامیہ کا کنٹرول نہیں تھا ۔ ان علاقوں میں اب طالبان ، القاعدہ اور دیگر انتہا پسند گروہوں کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک نیا سسٹم نافذ ہو گیا ہے ، جو قبائلی سسٹم سے بہتر ہے ۔ فاٹا اور پاٹا کا انضمام بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا ۔ ان علاقوں کو بین الاقوامی قوتوں نے بفرزون کے طور پر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ۔ اب یہ علاقے پہلے کی طرح استعمال نہیں ہو سکیں گے۔
افغانستان میں بدامنی کے اثرات کو روکنے اور ان سے نمٹنے کے لیے حالات پہلے سے بہتر ہیں ۔ صرف ہمیں اپنی پالیسیوں کو درست رکھنا ہو گا ۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ملکی داخلی ریاست پر اثر اندازہونے والی غلط خارجی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں یا پھر داخلی عدم استحکام سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔ انتہائی خراب حالات میں بھی افغانستان کے پڑوسی ملک ایران نے دہشت گردی کو کنٹرول کیا جبکہ پاکستان میں بدامنی اور خونریزی رہی ۔ اب ہمیں دوسروں کے کھیل اور اپنوں کے مخصوص مفادات سے نکلنا ہو گا ۔ ہمیں اپنی داخلی سلامتی اور امن و امان پر توجہ دینا ہو گی ۔ یقیناً ہمارے خارجی مفادات بھی ہوں گے لیکن ملک میں داخلی استحکام کے بغیر خارجی مفادات بھی حاصل نہیں ہو سکتے ۔ اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے ۔