• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے ایبٹ آباد کمیشن کے طریق کار اور کارکردگی پر اعتراضات تھے اور اب اس کی رپورٹ کے مندرجات کے بارے میں بھی تحفظات ہیں۔کمیشن نے مجھے بھی طلب کیا تھا لیکن رپورٹ میں میری تشویش‘ سوالات اور تجاویز کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی ۔ شاید کمیشن نے جنرل احمد شجاع پاشا کی اس رائے کو میرے بارے میں بھی معتبر سمجھا ہے کہ میڈیا والے تو غیرملکی ایجنٹ اور بکاؤ مال ہیں۔ وہ الگ بات کہ میں اس ملک کے مفاد کے خلاف کسی بھی ملکی یا غیرملکی قوت کے ساتھ تعاون کو بے غیرتی سمجھتا ہوں اور میں اس شخص کو حلال زادہ ہی نہیں سمجھتا جو زندگی کے کسی بھی موڑپر اپنی قوم اور مٹی کے دشمنوں کے ساتھ دانستہ تعاون کرے ۔ مجھے اعتراض ہے کہ اس رپورٹ میں بعض اہم گوشوں کی تحقیق سے اعراض برتا گیا ہے اور بعض اہم خطوط پر تحقیق کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ اس رپورٹ میں اداروں کو تو ذمہ دار قرار دلوادیاگیا ہے لیکن افراد کو ذمہ دار یا سزاوار ٹھہرانے سے گریز کیا گیا ہے تاہم پھر بھی بحیثیت مجموعی یہ ایک اچھی کاوش ہے ۔ اس نے کم از کم ہمیں بحیثیت قوم ہماری اصلیت دکھادی ہے اور آئینہ بن کرکم وبیش ہر ادارے کی حقیقت واضح کردی ۔ اس نے ہمارے ریاستی نظام کے کھوکھلے پن کو آشکار کرنے کے ساتھ ساتھ جنرل احمد شجاع پاشا کی اس رائے کی بھی تصدیق کردی ہے کہ پاکستان اگر ناکام نہیں تو خاکم بدہن ناکام ہوتی ہوئی ریاست ضرور ہے ۔ اب یا تو یہ ہے کہ ہم آنکھیں بند کرکے اس رپورٹ میں درج بھیانک حقائق اور اس کی سفارشات کو بھی اسی طرح دفن کردیں جس طرح کہ ہم ماضی میں کرتے رہے ہیں یا پھر یہ کہ ہم ہوش کے ناخن لے کر اپنی ریاست کی بربادی اور آئندہ نسلوں کی تباہی کے تدارک کی فکر کرلیں۔ بدقسمتی سے رپورٹ کے سبق کو ایک طرف رکھ دیا گیا ہے اور اس کی آڑ لے کر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے عمل کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ ایک طرف فوج کے خودساختہ ترجمان ہیں جو سب گند سویلین کی جھولی میں پھینکنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف بعض جمہوریت پسند ہیں جو اس کی آڑ میں ریاستی اداروں کے رہے سہے مورال کو بھی زمین بوس کرانا چاہتے ہیں ۔ فوج کے خودساختہ ترجمان یہ نہیں سوچتے کہ سول ادارے ہندوستان کے نہیں بلکہ پاکستان کے ادارے ہیں اور ان کی بے وقعتی سے پاکستان بے وقعت ہوگا اور سیاست و صحافت کے زبان دراز یہ نہیں سمجھتے کہ فوج امریکہ کی نہیں بلکہ پاکستان کی فوج ہے ۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ رپورٹ بہت غلط وقت پر منظر عام پر آئی اور حکومت بھی بڑے بھونڈے طریقے سے اس سے نمٹ رہی ہے ۔ حکومتی ترجمان سمجھے جانے والے بعض صحافی اور دانشور اس رپورٹ کی آڑ میں فوج اور اس کے اداروں کے ساتھ اسکور برابر کرنے لگ گئے ہیں جس کی وجہ سے فوجی حلقوں میں یہ پیغام جارہا ہے کہ حکومت اس رپورٹ کے ذریعے اس کو مدافعانہ پوزیشن پر لانا چاہتی ہے جبکہ دوسری طرف بھونڈے طریقے سے فوج کی ترجمانی کرنے والے خواتین و حضرات سیاسی قیادت کو یوں لتاڑ رہے ہیں کہ وہ فوج کے بارے میں مزید شک میں مبتلا ہورہی ہے ۔ یہ تماشا ایسے ماحول میں لگ گیا ہے کہ فوجی حکام سے خلوتوں کی نشستوں کا شرف حاصل کرنے والے انہیں ڈرارہے تھے کہ میاں نوازشریف کی نیت فوج اور اس کے اداروں کے بارے میں ٹھیک نہیں ہے اور میاں صاحب تک رسائی رکھنے والے بعض شرپسند انہیں یہ پٹی پڑھارہے تھے کہ نئی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی دہشت گردی کی وارداتوں کے پیچھے کچھ وارداتیوں کا ہاتھ ہے جو اس حکومت کو ناکام بنانا چاہتے ہیں ۔ پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے پر اگرچہ اعلیٰ سطح پر مشاورت ہوچکی تھی لیکن ظاہر ہے اس مشاورت یا منصوبہ بندی کو نہ تو فوج میں نچلی سطح تک شیئر کیا جاسکتا تھا اور نہ سیاسی حلقوں میں اس کی تشہیر کی جاسکتی تھی ۔ اس لئے یہ معاملہ بھی تناؤ میں اضافے کا موجب بن رہا ہے۔ اوپر سے کمیشن کی رپورٹ سامنے آگئی جس میں یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں تضادات ہیں اور ان کی وجہ سے ریاستی ادارے مضبوط ہوکر بھی اسامہ بن لادن جیسوں کی تلاش اور ایبٹ آباد آپریشن جیسے واقعات کے تدارک میں ناکام ثابت ہورہے ہیں (کمیشن کے سامنے جنرل پاشا اپنے بیان کا آغاز اس بات سے کرتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد سی آئی اے اور آئی ایس آئی اتحادی بن کر انٹیلی جنس شیرنگ کا آغاز کرنے لگے لیکن اسی بیان میں وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ سی آئی اے کی سازشوں کا مقابلہ کرنا ‘آئی ایس آئی کے لئے بڑا چیلنج ہے۔ گویا یہ واضح نہیں کہ امریکہ دوست ہے یا دشمن ہے ۔اسی طرح ڈرون کے بارے میں وہ کمیشن کو آگاہ کرتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس کی اجازت دی گئی اور پھر اس کے تدارک کے لئے اپنی کوششوں کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔ وہ ڈرون حملوں کے فوائد بھی بیان کرتے ہیں اور ساتھ ہی انہیں پاکستان کی خودمختاری کے خلاف بھی قرار دیتے ہیں) ۔ اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس رپورٹ کے منظرعام پر آتے ہی ہماری سویلین اور عسکری قیادت سرجوڑ کر بیٹھ جاتی اور اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں سے ان تضادات کو دور کرنے کی فکر کرتی لیکن بحث جس طرف چل پڑی ہے ‘ وہ کنفیوژن کو مزید بڑھاوادینے کا موجب بن رہی ہے اور مذکورہ مقصد کا حصول مزید مشکل ہوتا جارہا ہے ۔دوسراسبق اس رپورٹ کا یہ ہے کہ ہمارے سول اور فوجی اداروں کا آپس میں کوئی کوآرڈی نیشن نہیں پھر عسکری اداروں کا ایک دوسرے کے ساتھ اور اسی طرح سول اداروں کا آپس میں کوئی کوآرڈی نیشن نہیں ہے ۔ یہی معاملہ صوبوں اور مرکز کے درمیان ہے ۔ ہر ادارے کا کنٹرول مختلف جگہ پر ہے اور بسااوقات ہر ایک کی سمت بھی مختلف ہوتی ہے ۔ یوں اس رپورٹ کا دوسرا سبق یہی ہے کہ مستقبل میں مزید رسوائیوں سے بچنے کے لئے فوری طور پر ریاستی اداروں کے مابین کوآرڈی نیشن کو بہتر بنانے اور ان میں سے ہر ایک کی جمع کی گئی معلومات کے تجزیئے اور ان سے قومی سطح پر استفادے کی کوئی صورت نکالی جائے لیکن جو بے ہنگم بحث چل پڑی ہے‘ اس کی وجہ سے اداروں کے درمیان تناؤ مزید بڑھ رہا ہے اور یہ کام آسان ہونے کے بجائے مزید مشکل ہوتا جارہا ہے ۔ اگر فوج اور اس کے اداروں کے خودساختہ وکیلوں کا یہ خیال ہو کہ وہ اسٹیٹس کو پر اصرار کرکے جیسا ہے جہاں ہیں کی بنیاد پر معاملے کو آگے بڑھادیں گے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں کیونکہ مزید یہ ملک اسی طرح نہیں چل سکتا لیکن اگر جمہوریت اور سویلین راج کے خواہشمندوں کا یہ خیال ہو کہ وہ فوج اور اس کے اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کے ذریعے سویلین کنٹرول مضبوط کرلیں گے یا پھر ملک کو درپیش مسائل سے نکال سکیں گے تو ان کی پوزیشن احمقوں کی جنت میں رہنے والوں سے بھی بدتر ہے ۔ صرف حق جتانے اور مطالبات کرنے سے کنٹرول حاصل نہیں کیاجاسکتا ۔ کنٹرول حاصل کرنے کا بہترین طریقہ اپنے آپ کو دوسرے فریق سے بڑھ کر اہل اور سمجھدار ثابت کرنا ہے ۔ جس ملک میں ایک پڑوسی ملک کے معاملات کو دیکھنے کے لئے ایک خفیہ ایجنسی میں دو درجن کے قریب اعلیٰ افسران ہوں اور پورے دفتر خارجہ میں صرف دو بندے اس کام پر مامور ہوں‘ وہاں راتوں رات سویلین کنٹرول کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ تصادم اور ٹکراؤ کے بجائے سویلین اداروں کو مضبوط کیا جائے ۔ اس لئے مزید تناؤ کا موجب بننے والے اس فضول مکالمے کو ختم کیا جائے۔ عسکری اور سیاسی قیادت بیٹھ کر داخلہ اور خارجہ پالیسیوں میں موجود تضادات کو دور کریں اور اداروں کے مابین کوآرڈی نیشن کو بہتر بنانے کے لئے کوئی قابل عمل میکینرم وضع کریں ۔ ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کابینہ کی دفاعی کمیٹی کو دفاع کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کا مینڈیٹ بھی دیا جائے ۔ اس کا ایک طاقتور سیکرٹریٹ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں قائم کیا جائے ۔ اس سیکرٹریٹ کو امریکہ کے ہوم لینڈ سیکورٹی کے طور پر منظم کیا جائے ۔ اس میں اچھی شہرت کے حامل سابق فوراسٹار جرنیلوں کو بھی بٹھایا جائے ۔
بیوروکریسی کے اہل اور کام کرنے والے لوگوں کو بھی اس کا حصہ بنادیا جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ مضبوط اعصاب کے مالک اور سمجھدار سیاستدانوں کو بھی اس میں نمائندگی دی جائے ۔ یہ سیکرٹریٹ کابینہ کی دفاعی و قومی سلامتی کی مجوزہ کمیٹی کی نگرانی میں کام کرے اور پھر قومی سلامتی کے تمام اداروں کو اس سیکرٹریٹ سے منسلک کیا جائے جو روزانہ کی بنیادوں پر ان سے رپورٹ لینے کے ساتھ ساتھ متعلقہ اداروں یا صوبوں کے مابین کوآرڈی نیشن کا بھی کام کرے اور ساتھ ہی ساتھ خفیہ ایجنسیوں کے کام اور کارکردگی کی نگرانی اور ان کی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دے ۔ اس سیکرٹریٹ کو خفیہ ایجنسیوں کے خلاف شکایات سننے کا فورم بھی بنایا جائے ۔ اسی طرح اسی سیکرٹریٹ کے ساتھ دفتر خارجہ کو بھی منسلک کیا جائے تاکہ خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کیا جاسکے ۔اس میکنیزم کے ساتھ کسی فرد یا ادارے کی انا بھی مجروح نہیں ہوگی ۔ اشتراک کار کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا اور کسی کے اوپر کسی کی بالادستی کے تنازع سے بھی بچاجاسکے گا۔اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کابینہ کی دفاعی و قومی سلامتی کی کمیٹی کا اجلاس ہر ماہ منعقد ہوتا رہے جس میں اس سیکرٹریٹ کی رپورٹوں اور سفارشات کا جائزہ لیاجاتا رہے ۔
تازہ ترین