• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلا کی تاریخ نزدیک آنے کے ساتھ ملک میں خوف و ہراس، بدامنی اور خون خرابے میں اضافہ ہو رہا ہے، اس تنازعے کے دو بڑے فریق امریکہ اور طالبان بگڑتی ہوئی صورتحال کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دے رہے ہیں جبکہ اشرف غنی کی سکڑتی حکومت بے بسی سے آنے والے طوفان کا انتظار کر رہی ہے۔ امریکی حکومت اور عوام اپنے ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت اور اربوں ڈالر اس بے مقصد جنگ میں جھونک دینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ نااہل اور کرپٹ افغان حکومت کی مزید حمایت سے کچھ حاصل نہیں ہوگا چناچہ طالبان کیساتھ دوحہ میں ادھورے امن معاہدے کے بعد امریکن افواج کی واپسی شروع ہو گئی۔ طالبان جو شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ روس کے بعد دوسری سپرپاور امریکہ کو بھی انہوں نے شکست دے دی ہے، اپنی سٹریٹجک پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم کابل فتح کرنے کی انہیں کوئی جلد ی نہیں۔

دسمبر 1979میں روس نے افغانستان میں فوجیں داخل کیں تو مد مقابل سپر پاور امریکہ نے روس کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کی ٹھان لی اور پھر پاکستان کی سرزمین سے مزاحمتی جنگ شروع ہو گئی۔ روس کے توسع پسندانہ عزائم، گرم پانیوں تک پہنچے کی خواہش سے خائف اور کچھ حد تک ڈالروں کے لالچ میں پاکستان اس گریٹ گیم میں مرکزی مہرہ بن گیا۔ افغانستان میں بد امنی ہوئی تو لاکھوں افغانی مہاجروں نے پاکستان کا رخ کیا اور پاکستان کی حکومت و عوام نے بلا تفریق تاجک، ہزارہ، ازبک، پشتون، شیعہ، سنی تمام مہاجرین کو پناہ دی۔ غاصب لادین روسی افواج سے مقابلے کیلئے اسلامی جذبہ جہاد اجاگر کیا گیا اور مجاہدین کی لازوال قربانیوں کے نتیجے میں روس شکست کھا کر افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہو گیا۔ اس کا بھرم ٹوٹ گیا، چند برسوں میں اسکے حصے بخرئے ہو گئے اور یوں امریکہ دنیا میں واحد سپر پاور رہ گیا۔ امریکہ تو خدمات کا معاوضہ دے کر لوٹ گیا مگر اس خطے میں اس کے بعد امن قائم نہ ہو سکا اور سب سے زیادہ قیمت افغانستان اور پاکستان کے عوام کو ادا کرناپڑی۔ علاقے میں عدم استحکام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے پاکستان کی سرحد کے قریب ہرات، قندھار، جلال آباد اور مزار شریف میں اپنے قونصل خانے قائم کیے حالانکہ ان شہروں میں چند سو بھارتی بھی مقیم نہیں مقصد صرف پاکستان میں بدامنی اور شورش بپا کرنا تھا۔

پاکستان میں آج بھی بیس لاکھ سے زائد افغانی مہاجرین موجود ہیں جن میں طالبان کے حامی اور مخالف بھی بڑی تعداد میں ہوں گے جبکہ ہزاروں لوگ ہر روز تجارت، روزگار یا علاج معالجے کیلئے بارڈر کراس کرتے ہیں، پاکستانی حکومت کا موقف درست ہے کہ ان سب کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، اس کا حل تو یہی ہے کہ تمام مہاجرین واپس افغانستان چلے جائیں اور بارڈر مکمل بند کر دیا جائے تاکہ امر اللہ صالح اور حمد اللہ محب جیسے احسان فراموشوں کا منہ بند کیا جا سکے جو مسلسل پاکستان کیخلاف الزام تراشی میں مصروف ہیں لیکن یہ سب ممکن نہیں ہے۔

پاکستان کی حکومت اور عوام افغانستان میں امن کے حواہاں ہیں کیونکہ وہاں حالات مزید خراب ہوئے تو لاکھوں افغانی ایک مرتبہ پھر پاکستان کا رخ کریں گے جس کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ مہاجرین کیلئے افغانستان کی حدود کے اندر کیمپ بنا دیئے جائیں۔ افغانستان جو کھنڈرات کا ڈھیر بن چکا ہے جہاں بنیادی سہولتیں میسر نہیں جہاں بچے کھلونوں کے بجائے بمبوں، گولیوں کے خولوں سے کھیلتے ہیں، جھولوں کی جگہ ناکارہ ٹینکوں اور توپوں پر جھولتے ہیں وہاں امن قائم کرنا افغان حکومت، طالبان، ہمسایہ ممالک سمیت پوری دنیا کی ذمہ داری ہے۔ جس کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل قومی حکومت کی تشکیل اس حوالے سےپہلا قدم ہوگا۔

(مضمون نگار سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں )

تازہ ترین