• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے کسی دوسرے صوبے کی افسر شاہی میں اس طرح کی ہلچل دیکھنے میں نہیں آ رہی جیسی کہ آج کل پنجاب میں دیکھنے میں آ رہی ہے۔پرونشل مینجمنٹ سروس (پی ایم ایس ) ہو یا صوبائی پولیس سروس، دونوں ہی اپنی اپنی جگہ گویامحاذ جنگ پر کھڑی ہیں ۔اگر دیکھا جائے تو ان کے کچھ مطالبات جائز بھی ہیں ۔حال ہی میں صوبائی پولیس سروس کے ایس پی عہدے کے 43 افسران نے پولیس سروس آف پاکستان ( پی ایس پی) کیڈر لینے سے انکار کر دیا ہے ۔صوبائی پولیس سروس کے گریڈ18کے ان ایس پیز کی طرف سے پی ایس پی کیڈر لینے سے انکار اس وقت سامنے آیا جب آئی جی پنجاب انعام غنی کی طرف سے صوبے کے ایڈیشنل آئی جیز ،آر پی اوز اور ڈی آئی جیز کو ہدایات جاری کی گئیں کہ صوبائی پولیس سروس کے گریڈ18کے ایس پی عہدہ کے پی ایس پی کیڈر حاصل کرنے کے خواہشمند افسران کے متعلق آئی جی آفس کو آگاہ کیا جائے تاکہ اس حوالے سے پنجاب حکومت کو آگاہ کیا جائے ۔صوبائی پولیس سروس کے 43افسران نے چیف سیکرٹری کے نام اپنے خط میں آئی جی پنجاب کی طرف سے جاری کئے گئے خط میں دیئے گئے پلان کو نہ صرف مسترد کر دیا ہے بلکہ اسے امتیازی قرار دیتے ہوئے وفاقی سروس کے افسران کے ماتحت کام کرنے کو بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے ۔ان کے مطابق پولیس آرڈر 2002ء کے نفاذ سے قبل بھرتی ہونے والے کانسٹیبل، اے ایس آئی، سب انسپکٹر اور انسپکٹر گریڈ20اور 21تک بھی ترقی پاتے رہے لیکن اب شاید ہی کوئی ان گریڈز تک پہنچتا ہو۔ویسے دیکھا جائے تو بات ان کی قانونی طور پر درست لگتی ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کی وجہ سے آئین اور قانون کے مطابق آئی جی پنجاب کی طرف(ENCADREMENT) کے اس پلان کو کوئی لیگل کور حاصل نہیں ۔فیڈرل گورنمنٹ کے رولز اپنی جگہ لیکن وفاق کے سول سرونٹس ایکٹ 1973ء اور پنجاب سول سرونٹس ایکٹ 1974 میںENCADREMENT کوئی ذکر ہی نہیں ۔آئین کے مطابق چونکہ رولز ایکٹ کے تابع ہوتے ہیں اس لئے رولز کی اہمیت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ENCADREMENTہو ہی نہیں سکتی۔ 18ویںترمیم سے قبل ایک فیڈرل لیجسلیٹولسٹ ہوا کرتی تھی جس میں لاء اینڈ آرڈر بھی آتا تھا ۔18ویں ترمیم کے بعد کنکرنٹ لسٹ ختم ہونے کی وجہ سے لیجیسلیٹیو لسٹ بھی ختم ہو گئی اب بھی پرانا سسٹم ہی چل رہا ہے لیکن اس کی قانونی حیثیت نہیں ۔سچی بات تو یہ ہے کہ اصل مسئلہ قانونی یا غیر قانونی کا بھی نہیں۔صوبائی پولیس سروس کے افسران کی سنیارٹی لسٹیں اگر صوبے بنائیں تو ٹھیک ہے ورنہ یہ ڈسٹرب ہو جاتی ہیں ۔اگر لسٹیں وفاق بنائے تو سول سروس آف پاکستان اور پولیس سروس آف پاکستان کے مقابلے میں صوبائی پولیس سروس کے افسران سنیارٹی میں سب سے نیچے آ جاتے ہیں جس سے انکی سنیارٹی ختم ہو جاتی ہے ۔10سال قبل محکمہ داخلہ پنجاب تگڑا تھا اورENCADREMENT کے کیس وفاق کو بھجواتا تھا تو حالات پھربھی بہتر تھے ۔صوبائی سول اور پولیس سروس کے لئے صوبے میں ترقی کے حوالے سے حالات اور امکانات بہتر ہوتےہیں۔ صوبے میں چونکہ پوسٹیں زیادہ ہوتی ہیں اس لئے ترقی کے مواقع بھی زیادہ ہوتے ہیں ۔پنجاب کے 43ایس پیز کی طرف سے چیف سیکرٹری کے نام خط میں مذکورہ باتیں تو نہیں لکھیں لیکن اصل مسائل یہی ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے ۔رولز کی باتیں تو ایسے ہی ہیں۔وفاق میں تو تمام صوبوں کے وفاقی سول سروس کے افسران کے نیچے صوبائی پولیس سروس کے افسروںکولگا دیا جاتا ہے ۔انہیں وفاق میںگریڈ 19میں ہی 10سے 15سال لگ جاتے ہیں۔ صوبائی پولیس سروس کے ان افسران کا خیال ہے کہ چانس لینا ہی ہے تو کیوں نہ صوبائی حکومت میں لیا جائے بجائے اس کے کہ وفاق کے سمندر میں غرق ہو جائیں۔ایک اورپہلو جو صوبائی پولیس سروس کیلئے فائدہ مند ہے وہ یہ ہے کہ ان کے صوبوں میں سیاسی کنکشن بھی ہوتے ہیں ۔ان کے بطور ایس ایچ او اور ڈی ایس پی مقامی سیاست دانوں سے اچھے تعلقات بھی بن جاتے ہیں لہٰذا ان کا خیال ہے کہ اگر ترقی پنجاب کی سطح پر ہو گی تو یہ سیاست دانوں کے ذریعے اثرو رسوخ استعمال کروا سکتے ہیں کیونکہ اسلام آباد میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی بجائے آئی جی آفس کو INFLUENCEکرنا آسان ہوتا ہے اس کے علاوہ اگر آئی جی کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں تو وہ بھی صوبائی پولیس سروس کے لوگوں کو اوپر لاسکتا ہے ۔پنجاب میں جو ایک اور ہلچل مچی ہوئی ہے وہ ڈی ٹی ایل کوٹہ ختم کرنے کی ہے۔ ڈیپوٹیشن، ٹریننگ اور لیو (ڈی ٹی ایل ) کے اس کوٹے کے تحت اگر کوئی افسر تعیناتی کے دوران سال یا دو سال کی چھٹی پر جاتا تھا تو اس کا اگلا جونیئر افسر ترقی پاسکتا تھا۔پنجاب حکومت نے ڈی ٹی ایل کوٹے کے تحت سیٹیں ہی حذف کر دی ہیں ۔اس اقدام سے صوبائی مینجمنٹ سروس اور وفاقی سول سروس کے افسران کیلئے ترقی کے مواقع مخدوش ہو گئے ہیں ۔صوبائی سول سروس نے تو اس پر احتجاج کرنے کے حوالے سے غور شروع کر دیا ہے ۔ایک اور خبر یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فارن سروس آف پاکستان کے ایک افسر کو ڈیپوٹیشن پر پنجاب حکومت میں تعینات کیا گیا ہے اسی طرح پہلی مرتبہ پوسٹل سروس کے ایک ریٹائرڈ افسر کو پنجاب پبلک سروس کمیشن کا ممبر نامزد کیا گیا ہے ۔کام تو بھائی جان ہوتے ہیں لیکن تگڑے لوگ ہی سب کچھ کر سکتے ہیں۔میرٹ وغیرہ کی باتیں ایسے ہی ہیں۔

تازہ ترین