• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دِنوں ایک تصویر وائرل ہوئی، جس میں شمالی علاقہ جات میں کہیں موجود ایک پل سے نیچے دریا کے پانی اور سامنے پہاڑوں کا ایک خوبصورت سا منظر نظر آ رہا ہے۔ روڈ کی حالت سے لگ رہا ہے کہ ابھی نئی بنی ہے لیکن اُس پل کی صاف ستھری دیوار پر اسپرے پینٹ سے لکھا ہے کہ Mr & Mrs Shoaib Were Here، یعنی مسٹر اور مسز شعیب یہاں پر آئے تھے۔ اِن مسٹر اور مسز کو نہ تو کوئی جانتا ہے اور نہ ہی کسی کو اِس بات سے کوئی دلچسپی ہے کہ وہ وہاں آئے تھے یا نہیں لیکن اسپرے پینٹ سے بڑے بڑے ہجوں میں وہاں یہ عبارت لکھنے کی اُن کی اِس حرکت نے ایک خوبصورت منظر کو برباد کردیا ہے بلکہ وہاں کے مقامی لوگوں کو بھی ایک منفی پیغام دیا ہے، جو اب بار بار سوشل میڈیا پر اپیل کرتے ہیں کہ آپ ہمارے علاقوں میں سیاحت کے لئے ضرور آئیں لیکن اِس علاقوں کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں اور ہماری علاقائی قدروں اور ثقافت کا احترام کریں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اُن علاقوں میں جانے والے سیاح وہاں جا کر صفائی کا بالکل خیال نہیں رکھتے اور گندگی پھیلا کر چلتے بنتے ہیں۔

کچھ برس قبل میں پی آئی اے کی ایک فلائیٹ سے سفر کر رہا تھا، جب اپنی نشست پر بیٹھ کر میں نے کھڑکی سے پردہ ہٹایا تو میری نظر ایک حیران کن منظر پر پڑی۔ کھڑکی کے پاس ہی، جہاز پر بال پوائنٹ پین سے ایک نمبر لکھا ہوا تھا۔ میں نے اُس کی تصویر بنا کر سوشل میڈیا پر لگا دی جو کہ وائرل بھی ہو گئی۔ کسی نے پھر اُس شخص کو میسج کیا اور اُس سے ہونے والی گفتگو کی اسکرین شاٹس بھی سوشل میڈیا پر شیئر کیں۔ اُس نے نمبر لکھنے والے شخص کو کہا کہ میں پی آئی اے سے ہوں، آپ نے جہاز پر اپنا نمبر کیوں لکھا؟ جواب میں اُس نے کہا کہ میں نے تو مذاق میں لکھ دیا تھا۔ جب اُس کو ڈرانے کے لئے بتایا گیا کہ اُس کو اِس حرکت پر بھاری جرمانہ ہوگا تو اُس نے آگے سے کہا کہ یار 5000لے کر معاملے کو رفع دفع کروا دیں۔

کافی لوگ اِس طرح کے معاملات کو تعلیم اور عقل کی کمی قرار دیتے ہیں لیکن صرف ایسا ہی نہیں ہے۔ جہاز پر جو شخص بھی سفر کرتا ہے اُس سے اُمید ہوتی ہے کہ وہ سمجھدار ہوگا لیکن اکثر پڑھے لکھے لوگ بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ ہماری یونیورسٹیوں میں بھی جا بجا ایسی حرکتوں کے نشانات موجود ہوتے ہیں۔ میں ایک دفعہ پاکستان کی ایک بہت اچھی یونیورسٹی میں لیکچر دینے گیا تھا تو وہاں ہال میں پڑے صوفے پر ایک لڑکی بال پوائنٹ سے صوٖفے کی پوشش پر ڈرائنگ بنا رہی تھی۔ جب میں نے اُس سے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کر رہی ہیں تو اُس کا جواب تھا کہ بس، ویسے ہی۔ جب میں نے اُس سے پوچھا کہ آپ کی اِس حرکت پر یونیورسٹی والے کچھ نہیں کہیں گے؟ تو اُس نے کہا کہ میں یونیورسٹی کو جرمانہ بھر دوں گی۔ اِس لئے، مسئلہ تعلیم کی کمی نہیں بلکہ کچھ اور ہی ہے۔

اِن لوگوں سے آپ پوچھیں کہ کیا یہ بال پوائنٹ سے اپنی گاڑی کی باڈی پر اپنا نمبر لکھیں گے؟ کیا وہ لڑکی کبھی اپنے گھر کے صوفے پر اِس طرح ڈرائنگ بنائے گی؟ مسٹر اور مسز شعیب کے گھر کی دیوار پر اگر کوئی اسپرے پینٹ سے کچھ لکھے گا تو مجھے پورا یقین ہے کہ نہ صرف اُنہیں شدید غصہ چڑھے گا بلکہ وہ اِسے سخت ناپسند بھی کریں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اِن تینوں مثالوں میں وہ جس چیز کو خراب کر رہے ہوں گے وہ چونکہ اپنی ہیں، اِس لئے وہ ایسا کچھ بھی کرنا پسند نہیں کریں گے۔ ہم کسی بھی عوامی مقام، وہاں موجود اشیا، پی آئی اے کے جہاز، یونیورسٹی کے صوفے یا دفتر کے فرنیچر کو اپنا نہیں سمجھتے۔ ہم خود کو اِن چیزوں کی ملکیت کا دعوےدار نہیں سمجھتے۔ حالانکہ اِن چیزوں کو خراب کرکے براہِ راست نہ سہی لیکن نقصان اپنا ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ یقیناً جو لوگ سڑک پر کوڑا پھینکتے ہیں وہ اپنے گھر کو تو صاف ہی رکھتے ہوں گے لیکن وہ اُس سڑک کو اپنا نہیں سمجھتے جس پر چل کر وہ اپنے گھر جاتے ہیں، جو کہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔

اِس طرح کی چھوٹی چھوٹی چیزیں ایک بڑی تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ کہیں نہ کہیں ہم اِس ملک کو اُتنا اپنا نہیں سمجھتے جتنا کہ سمجھنا چاہئے۔ اِس سوچ کا تعلق صرف تعلیم سے نہیں ہے۔ دنیا میں بہت ساری جگہیں ایسی بھی ہیں جہاں کہ لوگ زیادہ پڑھے لکھے تو نہیں ہیں لیکن وہ اپنے علاقے کی خوبصورتی اور صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ اگر ہم نے واقعی پاکستان کے شمالی علاقوں کو سیاحت کا مرکز بنانا ہے تو ہمیں اُن علاقوں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کیساتھ ساتھ وہاں کی قدروں اور ثقافت کا احترام کرنا بھی سیکھنا ہو گا اور وہاں جا کر صفائی ستھرائی کا بھی خاص خیال رکھنا ہو گا۔ اگر ہم اپنے ہی اساسوں اور چیزوں کو پرایا سمجھتے رہیں گے تو نقصان صرف اپنا ہی کریں گے، کسی اور کا نہیں۔

تازہ ترین