14اگست 2021 کو پاکستان اپنی زندگی کے چوہتر سال مکمل کر کے پچھترویں سال میں داخل ہو جائے گا۔ تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی خواتین سے لے کر ڈائمنڈ جوبلی تک پاکستان کی خواتین کا سفر کیسا رہا؟ انہوں نے کیا کامیابیاں حاصل کیں اور کن مشکلات کا سامنا کیا، زیر نظر مضمون میں مختصر جائزہ ملاحظہ کریں۔
……٭٭……٭٭……٭٭……
2021 کی پہلی سہ ماہی میں عرب نیوز نے ان آٹھ پاکستانی خواتین کی فہرست مرتب کی تھی، جن کی کامیابیاں اخباروں کی شہ سرخی بنی تھیں۔ان میں پہلا نمبر زارا نعیم ڈار کا تھا جنہوں نے چارٹرڈ اکائونٹینسی کے مشکل ترین امتحان میں دنیا بھر کے امیدواروں میں اول پوزیشن حاصل کی۔اور گلوبل پرائز حاصل کیا۔ ان کی کامیابی پوری قوم کے لئے باعث فخر تھی ۔
پاکستان کی ٹین ایجر لڑکی دانانیر مبین کے ایک وائرل وڈیو شاٹ کو ایک ہندوستانی کمپوزر نے ری مکس کیا اور دونوںممالک میں دس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے انہیں فالو کیا۔اب وہ دونوں ملکوں میں ایک جانا پہچانا نام بن چکی ہیں۔ اس ری مکس ویڈیو کو یو ٹیوب پر لوگوں نے پچاس لاکھ مرتبہ دیکھا۔اہم بات یہ ہے کہ مبین کی اس مزاحیہ ویڈیو نے دونوں ملکوںکے لوگوں کو ہنسایا۔چترال کی آئی سرجن ڈاکٹر زبیدہ سی رنگ اس وقت اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بنیں جب پہلی مرتبہ کسی پاکستانی کی لکھی ہوئی کتاب کو ممتاز بک اتھارٹی لسٹ میں شامل کیا گیا۔ ان کی کتاب کا نام تھا’’ Optics made easy.The last review of clinical optics’’۔اس کتاب کو آج تک آنکھوں کے امراض کے بارے میں لکھی جانے والی بہترین کتاب قرار دیا گیا۔یہ کتاب آنکھوں کے ڈاکٹرز طلبہ کی امتحانی تیاری میں مدد کے لئے لکھی گئی ہے۔
پاکستان کی ایکٹوسٹ خواتین عرصہ سے ریپ اور دیگر کیسز میں دو انگلی والے ٹیسٹ کی مخالفت کر رہی تھیں۔ لاہور کی ہائی کورٹ جج عائشہ ملک نے جنوری 2021 میں اپنے اہم فیصلے کے ذریعے لڑکی کے باکرہ ہونے کے فیصلے کے لئے دو انگلیوں Two finger virginity test والے ٹیسٹ کو غیرقانونی قرار دے دیا۔ جسٹس ملک نے اس ٹیسٹ کو خواتین کے وقار کیخلاف قرار دیا۔ملک بھر میں اس فیصلے کو خواتین کے حقوق کی تحریک کی کامیابی کے طور پر سراہا گیا۔
نصیبو لال کا پی ایس ایل کا ترانہ: امسال پاکستان سپر لیگ کے ترانے کو نصیبو لال نے بڑے جذبے کے ساتھ گایا۔ لیکن انٹر نیٹ پر ترانے کے چند انگریزی الفاظ کے تلفظ اور ادائیگی پر نصیبو لال پر بے حد تنقید ہوئی۔ اس کے باوجود نصیبو کا گانا اخباروں کی سرخیوں کی زینت بنااور سوشل میڈیا پر چھایا رہا۔دیگر آرٹسٹوں اور مداحوں نے ان پر محبتوں اور داد و تحسین کی برسات کر دی۔ ان کے ترانے کو یو ٹیوب پر تیرہ ملین افراد دیکھ چکے ہیں۔
علیزہ ایاز، پائیدار ترقیاتی مقاصد کے لئے اقوام متحدہ کی نوجوان ایمبیسیڈر: امسال کلائمٹ ایکشنClimate Action کے لئے علیزہ کے ان تھک کام کے اعتراف کے طور پر انہیں اقوام متحدہ کی نوجوان سفیر کے طور پر چنا گیا، ملالہ یوسف زئی کے بعد علیزہ دوسری نوجوان پاکستانی خاتون ہیں جنہیں اقوام متحدہ نے اپنا سفیر چنا۔ علیزہ نوجوانوں کو اقتصادی اور سیاسی عمل میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ کلائمٹ ایکشن کے حوالے سے بھی کام کریں گی۔
پولیس ویمن آمنہ بیگ، تبدیلی لانے کا عالمی ایوارڈ:۔اے ایس پی آمنہ بیگ کو ڈنمارک کے سفیر نے Integrity Icon Award دیا۔ یہ ایوارڈ معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے والے سول سرونٹس کو دیا جاتا ہے۔ اسلام آباد کوہسار میں کام کے دوران آمنہ نے عورتوں کے مسائل کے بارے میں زورو شور سے آواز اٹھائی۔
سدرہ قاسم، ایٹمز دھماکہ: جوتوں کی برانڈ ایٹمز کی شریک بانی سدرہ کامیاب ترین اسنیکر کمپنی کی مالک ہیں۔ ان کا اپنا انسٹاگرام صفحہ ہیومنز آف نیو یارک HONY ہے۔ سدرہ کی کہانی اس وقت اخباروںکی شہ سرخیوں کی زینت بنی جب انہوں نے انسٹا گرام پر بتایا کہ کیسے انہوںنے عام توقعات سے منہ موڑ کر دل کی بات مانی۔اور موجودہ مقام تک پہنچنے کے لئے کتنی مرتبہ اپنا راستا تبدیل کیا۔ ملک سے باہر اور ملک میں روایات سے ہٹ کر کام کرنے پر انہیں بے حد سراہا گیا۔
خیر یہ تو امسال خواتین کی حاصل کردہ کامیابیوں کا ذکر تھا۔ لیکن یہ کامیابیاں ان بہت سی طاقتور خواتین کی جدو جہد کا نتیجہ ہیں جو قیام پاکستان سے پہلے آل انڈیا مسلم لیگ کی صفوں میں موجود تھیں۔آ ل انڈیا مسلم لیگ نے 1932 میں عورتوں کو سیاست میں مساوی درجہ دینے کی قرارداد منظور کی تھی۔اس موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا ’’کوئی بھی قوم اس وقت تک شان و شوکت کی بلندی کو نہیں چھو سکتی جب تک اس کی عورتیں اس کے ساتھ شانہ بشانہ نہ ہوں۔ ہم برے رسم و رواج کا شکار ہیں۔ اپنی عورتوں کو قیدیوں کی طرح گھروں کی چار دیواری میں بند رکھنا انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ہماری عورتوں کو جن تکلیف دہ حالات میں زندگی گزارنی پڑتی ہے، اس کی کسی طرح اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘‘
خواتین کا عالمی سال اور پاکستانی خواتین:اقوام متحدہ نے ۱۹۷۵ء کو عورتوں کا عالمی سال قرار دیا۔ میکسیکو میں عورتوں کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں پاکستانی وفد کی قیادت نصرت بھٹو نے کی، اس کانفرنس میں پیش کی گئی تجاویز کے نتیجے میں ۱۹۷۶ میں حکومت پاکستان نے ویمن ڈویژن کے قیام کی منظوری دی۔ ۱۹۷۷ء کے فوجی انقلاب کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق کے دور کا آغاز ہوا اور عورتوں کی ترقی کا سفر محدود ہوتا چلا گیا۔ضیاء الحق نے اسلام کو اپنے سیاسی مقاصدکے لیے استعمال کیا اور اس کے بنائے ہوئے امتیازی قوانین سے مسلم عورتیں اور مذہبی اقلیتیں سب سے زیادہ متاثر ہوئیں۔
پاکستان میں، ۱۹۶۱ء کے عائلی قوانین اور ۱۹۶۴ء کا فیملی کورٹس ایکٹ عورتوں کے قانون حقوق میں اضافے کا سبب بنے تھے۔ عائلی قوانین کے تحت والدین کی وفات کی صورت میں ان کے بچوں کو دادی،دادایا نانی ،نانا کی جائیداد میں حصہ دار ہونے کا حق دیا گیا۔ شادی کی رجسٹریشن(ایک سے زیادہ شادی ،طلاق اور خلع وغیرہ کے معاملات کی رجسٹریشن) بیوی کی کفالت اور مہر، اس کے ساتھ بچپن کی شادی ۱۹۲۹ء کے ایکٹ اور مسلم شادیوں کی تحلیل کے ایکٹ میں بھی ترامیم کی گئیں۔
فیملی کورٹس ایکٹ کے تحت نئے کورٹس تو بنائے گئے۔ لیکن ان کے اختیارات سول ججز کو تفویض کر دیئے گئے، یوں عدالتی عمل مزید طویل ہوگیا اور عورتوں کو ریلیف نہیں مل سکا۔ لیکن ضیاء الحق کے امتیازی قوانین کے نتیجے میں بے شمار عورتوں کو جیل کی ہوا کھانی پڑی۔قانون ، تعلیم اور روزگارکے شعبے میں عورتوں کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ بقول شخصے ضیاء الحق نے اپنے اسلامائزیشن کے منصوبوں کی اولین اور واضح علامت کے طورپر ’’عورت کا رڈ‘‘ استعمال کیا۔تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں اور ہزاروں مدرسے قائم کئے گئے۔
ضیاء الحق نے ۱۹۷۹ء میں حدود آرڈی نینس جاری کیا، ۱۹۸۱ میں فہمیدہ اللہ بخش کیس سامنے آیا، جس میں زنا کے الزام میں ایک شادی شدہ جوڑے کو سنگسار کرنے اور کوڑے لگانے کی سزاسنائی گئی۔ اس مقدمے نے پڑھی لکھی اور باشعور خواتین کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اب معاملہ برداشت سے باہر ہوتا جارہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے خواتین محاذ عمل (ویف) تشکیل دیا اور امتیازی قوانین کے خلاف جدوجہد شروع کردی۔۱۲ فروری ۱۹۸۳ء کو لاہور میں مال روڈ پر عورتوں کا ایک گروپ جمع ہوا۔ وہ قانونِ شہادت کے خلاف احتجاج کررہی تھیں۔
جس میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر قرار دی گئی تھی۔یہ خواتین لاہور ہائی کورٹ جاکے ایک پٹیشن جمع کروانا اچاہتی تھیں۔عوامی شاعر حبیب جالب بھی ان کے ساتھ تھے۔ جنہوں نے اس موقع پر خواتین کے لیے ایک نظم بھی پڑھ کر سنائی۔ پولیس نے ان خواتین پر لاٹھی چارج کردیا۔حبیب جالب کا سرپھٹ گیا۔ تقریباً پچاس خواتین کو گرفتار کرلیا گیا۔اب اس واقعہ کی یاد میں ہر سال ۱۲ فروری کو پاکستانی عورتوں کا قومی دن منایا جاتا ہے۔
۱۹۸۰ء کا عشرہ صحیح معنوں میں پاکستانی خواتین کا عشرہ تھا۔جب پاکستان کے سیاسی منظر پر عورتوں کی ایک طاقتور تحریک ابھری ۔ اقوام متحدہ نے ۱۹۷۵ تا ۱۹۸۵ کے عشرے کو عورتوں کا عشرہ قرار دیا تھا۔ سچ پوچھئے تو یہ صحیح معنوں میں پاکستانی عورتوں کا عشرہ تھا۔ جس سے عورتوں نے اپنے خلاف بنائے جانے والے امتیازی قوانین کے بارے میں مسلسل جدوجہد کی، یوں بھی بانی پاکستان اور چند دیگر رہنمائوں کی سوچ کے برعکس پاکستانی معاشرہ شروع سے ایک پدر سری معاشرے رہا ہے اور اکثر لوگ عورتوں کو بھیڑ بکریوں پوچھے بغیر طے کردی جاتی ہے۔ عام طور پر ان کی شادی برادری کے اندر ہی کسی سے کی جاتی ہے اور اکثر فیصلے برادری کی پنچایت میں ہوتے ہیں۔
پاکستان کی آبادی کے اعدادو شمار بھی عورتوںکے خلاف امتیاز روا رکھے جانے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ۱۹۸۱ کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد ۹۰۶ ہے۔ حالانکہ عام تاثر یہ ہے کہ عورتیں تعداد میں مردوں سے زیادہ ہیں۔ امرتیاسین کی تحقیق کے مطابق ہندوستانی پنجاب میں عورتوں کی تعداد اس لیے کم ہوگئی ہے کہ والدین کو جب الٹراسائونڈ کے ذریعے ہونے والے بچے کی جنس کا علم ہوتا ہے تو لڑکی ہونے کی صورت میں اسقاط حمل کرادیا جاتا ہے۔ اسی لیے ڈاکٹروں پر بچے کی جنس نہ بتانے کی پابندی لگائی جاتی ہے۔ پاکستان میں ایسی کوئی تحقیق تو نہیں ہوئی، لیکن ماہرین سماجیات،خاص طور پر صنف اور ترقی کے موضوع پر تربیتی اورکشاپس کرانے والوں کا خیال ہے کہ ہمارے معاشرے میں بیٹے کو ترجیح دینے کا چلن کچھ زیادہ ہی عام ہے۔
شادی کے بعد جب بھی عورت امید سے ہوتی ہے۔ سسرال والوں کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ بیٹا پیدا ہو۔بیٹی کی پیدائش پر خوشی نہیں منائی جاتی ،کھانے پینے،تعلیم کے حصول اور علاج معالجے میں بیٹے کو ترجیح دی جاتی ہے۔اس رویے کے باوجود پاکستانی عورتیں آج پہلے سے بہتر مقام و مرتبہ حاصل کرچکی ہیں۔ ضیاء الحق کے عہد کے خاتمے کے بعد جمہوری حکومتوں کے ادوار میں بنائے جانے والے منصوبوں میں عورتوں کے مسائل پر خاص توجہ دی گئی۔۱۹۸۸ء میں بے نظیر بھٹو کو پاکستان کی پہلی وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے عورتوں کے حقوق میں آواز اٹھائی اور ویمن پولیس اسٹیشنری بنوائے۔ عورتوں کو اعلیٰ عدالتوں میں ججز بنایا۔محترمہ ماجدہ رضوی صاحبہ کو سندھ ہائی کورٹ کی پہلی صدر بنیں۔ مگر دونوں دفعہ بے نظیر کی حکومت مدت مکمل کرنے سے پہلے ہی ختم کردی گئی۔
۱۹۸۹ء میں ویمن ڈیولپمنٹ منسٹری نے پانچ یونی ورسٹیوں اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ، پشاور اور لاہور میں ویمن اسٹیڈی سینٹر ز قائم کئے۔لیکن ان میں سے چار مالی اور انتظامی معاونت نہ ہونے کی وجہ سے فعال نہ ہوسکے اور صرف کراچی یونیورسٹی کا سینٹرہی کام کرپایا۔
فرسٹ ویمن بینک کا قیام بھی ۱۹۸۹ء میں عمل میں آیا،اس کا مقصد عورتوں کی مالی ضروریات کے حوالے سے کام کرنا تھا، اس لیے اس قومیائے کیے گئے کمرشل بینک کو ترقیاتی مالیاتی ادارہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سماجی فلاحی تنظیم کا درجہ بھی دیا گیا، اس بینک کو عورتیں ہی چلارہی ہیں۔ ابتداء میں اسے عورتوں کو چھوٹے قرضے دینے کے لیے وزارت ترقی خواتین کے سپرد کی گئی تھی، بعد میں خواتین کی تنظیموں نے بھی اس کے بارے میں آگاہی پھیلانے اور اس پر عمل درآمدکرانے کی بے حد کوشش کی۔
نواز شریف نے ۱۹۹۷ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد قصاص اور دیت آرڈیننس بنایا جس کی آڑ میں غیرت کے نام پر قتل کے مجرموں کو چھوٹ مل گئی کیونکہ خاندان کا جو فرد قتل کرتا ہے اس کا کوئی بزرگ ولی بن کراسے معاف کر دیتا یا فریقین میں کوئی سمجھوتہ ہوجاتا ہے۔
۹۷۔۱۹۹۶ میں عورتوں کے مقام و مرتبہ کے بارے میں تحقیق کے لیے ناصر اسلم زاہد کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا گیا۔جس میں دیگر لوگوں کے علاوہ عاصمہ جہانگیر اور شہلا رضا بھی شامل تھیں۔ اس کمیشن کی سفارشات پر اگر عمل ہوجاتا تو شاید عورتوں کے سارے مسئلے حل ہو جاتے۔
قومی کمیشن برائے توقیر نسواں کا قیام جولائی ۲۰۰۰ء میں عمل میں آیا۔ اس کمیشن کے عہدے داروں کی تعیناتی تین سال کے لیے ہوتی ہے۔ سول سوسائٹی کی کسی تجربہ کا ر خاتون کو اس کا چیئر پرسن مقرر کیا جاتا ہے۔
قومی کمیشن عورتوں کی ترقی اور صنفی مساوات کے نقطہ نظر سے حکومتی پالیسی کے اقدامات، عورتوں کے مقام و مرتبہ پر اثر انداز ہونے والے قوانین اور قواعد و ضوابط کا جائزہ لیتا ہے۔ جو خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کی صورت مین ان کی مدد کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ کمیشن عورتوں پر ہونے والے تشدد کے انفرادی کیسز کی تحقیقات بھی کرتا ہے۔ شاہین سردار، جسٹس ماجدہ رضوی،عارفہ سید اور انیس ہارون کے بعد ا خاور ممتاز اس کی سربراہ رہیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک پنجاب کمیشن برائے توقیر نسواں کی چیئرپر سن فوزیہ و قار ر ہیں۔ پنجاب وہ صوبہ ہے، جہاں سب سے زیادہ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ پنجاب کمیشن ان شکایات پر کام کرتا ہے ۔جہاں عورتوں پر تشدد ہوتا ہے اور ریاستی ادارے ان کی داد رسی نہیں کرتے۔اس کے لیے نیشنل کمیشن کی گذشتہ چیئرپرسن خاور ممتاز کو حقوق نسواں اور ترقیاتی مسائل پر کام کرنے کا تیس سالہ تجربہ ہے۔ حقوق نسواں کے لیے ان کے سفر کا باقاعدہ آغاز ۱۹۸۱ء میں ویمن ایکشن فورم کے وجود میں آنے کے بعد شروع ہوا۔
پہلے کمیشن کا سیکرٹریٹ وزارت برائے ترقی نسواں میں ہوتا تھا۔ مگر بے جامداخلت کی وجہ سے کمیشن کے کام میں حرج ہوتا تھا۔۲۰۱۲ ء کا ایکٹ پاس اور بزنس رولز منظور ہوجانے کے بعد اب تک کمیشن خود مختار ادارہ ہے۔ کمیشن کا آئین بھی چیف ایگزیکٹو کی پسند یا ناپسند کے تابع نہیں رہا۔بلکہ سربراہ کے چنائواور صوبائی ممبران کی نامزد گی کے لیے باقاعدہ ایک طریقہ کار وضع کردیا گیاہے۔ اب سربراہ کا تقرر صرف وزیراعظم کی صوابدید نہیں رہا،بلکہ اس کے لیے وسیع تر مشاورت عمل میں لائی جاتی ہے، یہاں تک کہ حزب اختلاف کے سربراہ کی رائے بھی شامل کی جاتی ہے، اگر سربراہ کے تقرر میں اختلاف پیدا ہوجائے تو پارلیمنٹ میں خصوصی کمیٹی بنانے کی ہدایت ہے، جووضع کردہ طریقہ کا رکے تحت دوسرے سربراہ کا چنائو کرتی ہے۔اس طرح ہر صوبہ دو ممبران نامزد کرتا ہے، اچھا تجربہ اور بہترین مہارت رکھنے والے ممبران اس میدان میں اترتے ہیں۔ اس میں یہ لازمی نہیں کہ وہ سرکاری ملازم ہوں۔ خیبر پختون خواہ اسمبلی میں خواتین کمیشن قائم کرنے کا بل آٹھ سال پہلے منظور ہوچکا ہے۔لیکن کمیشن ابھی تک فعال نہیں ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں خواتین کمیشن کے قیام کا بل اسمبلی میں پیش ہوگیا ہے۔ جو جلد منظور ہوجائے گا۔جب سے وفاقی سطح پر خواتین کی وزارت ختم ہوئی ہے۔ کمیشن کے پاس قومی اسمبلی میں خواتین کی آواز اٹھانے کے لیے قائمہ کمیٹی بھی نہیں رہی ہے اور اب کمیشن انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کورپورٹ کرتا ہے۔
این سی ایس ڈبلیو کی تشکیل نو کی تجویز جون ۲۰۱۳ء میں تمام ممبران کی ترقی کے بعد پیش کی گئی تھی۔ گذشتہ کمیشن نے خاور ممتاز کی قیادت میں پہلا قدم انتخابات کی نگرانی کا اٹھایا۔ کمیشن نے انٹر نیٹ پر شکایات کا سیل قائم کیا اور ای میل ایڈریس اور ایس ایم ایس نمبر جاری کئے،تاکہ لوگ اپنی شکایات درج کراسکیں ۔ کمیشن کی توجہ کا مرکز صوبوں میں گھریلوتشدد پر قانون سازی رہی۔ کمیشن نے اس سلسلے میں قومی سطح پر مشاورت کرکے گھریلو تشدد کے قانون پر اپنے موقف سے بھی آگاہ کیا۔
سندھ اسمبلی پہلے ہی یہ قانون پاس کرچکی ہے، جس کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔
سندھ کی خواتین کو ۲۰۱۳ میں عورتوں کے عالمی دن یعنی ۸ مارچ کے موقع پر حکومت کی طرف سے گھریلو تشدد کی روک تھام کے قانون کی شکل میں ایک تحفہ دیا گیا۔ اس سے پہلے مرد، عورت کی ہڈی پسلی ایک کردیتا تھا۔ جسے پولیس گھریلو معاملہ کہہ کر نظر انداز کردیتی تھی۔ یہ قانون صرف عورت کو نہیں بلکہ ایک گھر میں رہنے والے بچوں اور ضعیف یا معذور افراد کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔
اس قانون کے تحت ایک کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔ جو قانون کی شرائط کار جا جائزہ لیتا رہے گا اور ضرورت پڑنے پر ترامیم کی تجویز بھی دے سکے گا۔ کمیشن گھریلو تشدد سے متعلق شکایات کا جائزہ لینے کے علاوہ قانون پر عملدرآمد نہ ہونے کی شکایات کا جائزہ بھی لے گا۔ بلکہ گھریلو تشدد سے پاک ماحول پیدا کرنے کی منصوبہ بندی میں شرکت اور مشاورت بھی اس کی ذمے داری ہوگی۔
1981سے عورتوں نے اپنے خلاف بنائے جانے والے امتیازی قوانین کے بارے میں مسلسل جدوجہد کی ،یوں بھی بانی پاکستان اور چند دیگر رہنمائوں کی سوچ کے برعکس پاکستانی معاشرہ شروع سے ایک پدرسری معاشرہ رہا ہے اور اکثر لوگ عورتوں کو بھیڑ بکریوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ان کی شادی ان سے پوچھے بغیر طے کردی جاتی ہے۔ عام طورپر ان کی شادی برادری کے اندر ہی کسی سے کی جاتی ہے اور اکثر فیصلے برادری کی پنچائیت میں ہوتے ہیں ۔
پاکستان کی آبادی کے اعدادو شمار بھی عورتوں کے خلاف امتیازی رویہ رکھے جانے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ۱۹۸۱ کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد ۹۰۶ ہے۔ حالانکہ عام تاثر یہ ہے کہ عورتیں تعداد میں مردوں سے زیادہ ہیں۔ امرتیا سین کی تحقیق کے مطابق ہندوستانی پنجاب میں عورتوں کی تعداد اس لیے کم ہوگئی ہے کہ والدین کو جب الٹراساؤنڈ کے ذریعے ہونے والے بچے کی جنس کا علم ہوتا ہے تو لڑکی ہونے کی صورت میں اسقاط حمل کرادیا جاتا ہے ۔اسی لئے ڈاکٹروں پر بچے کی جنس نہ بتانے کی پابندی لگائی جاتی ہے۔ پاکستان میں ایسی کوئی تحقیق تو نہیں ہوئی۔لیکن ماہرین سماجیات، خاص طور پر صنف اور ترقی کے موضوع پر تربیتی ورکشاپس کرانے والوں کا خیال ہے کہ ہمارے معاشرے میں بیٹے کو ترجیح دینے کا چلن کچھ زیادہ ہی عام ہے۔ شادی کے بعد جب بھی عورت امید سے ہوتی ہے۔
سسرال والوں کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ بیٹا پیدا ہو۔بیٹی کی پیدائش پر خوشی نہیں منائی جاتی ،کھانے پینے ،تعلیم کے حصول اور علاج معالج میں بیٹے کو ترجیح دی جاتی ہے اس رویے کے باوجود پاکستانی عورتیں آج پہلے سے بہتر مقام و مرتبہ حاصل کرچکی ہیں۔ ضیاء الحق کے عہدکے خاتمے کے بعد جمہوری حکومتوں کے ادوار میں بنائے جانے والے منصوبوں میں عورتوں کے مسائل پر خاص توجہ دی گئی۔۱۹۸۸ء میں بینظیر بھٹو کو پاکستان کی پہلی وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے عورتوں کے حقوق میں آواز اٹھائی اور ویمن پولیس اسٹیشنز بنوائے۔ عورتوں کو اعلیٰ عدالتوں میں ججز بنایا۔ محترمہ ماجدہ رضوی صاحبہ کو سندھ ہائی کورٹ کی پہلی خاتون جج بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اکرم خاتون فرسٹ ویمن بینک کی پہلی صدر بنیں،مگر دونوں دفعہ بے نظیرکی حکومت مدت مکمل کرنے سے پہلے ہی ختم کردی گئی۔
اکیسویں صدی میں پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی مناتے ہوئے پاکستانی عورت کو فخر ہے کہ اس کے سفر کا آغاز محترمہ فاطمہ جناح،بیگم رعنا لیاقت علی خان، بیگم شاہنواز، سلمیٰ تصدق حسین۔ شائستہ اکرام اللہ اور دیگر ایسی ہی بہت سی قابل خواتین کی رہنمائی میں ہوا۔1947کے اواخر میں کراچی میں خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا’’ آدھا پاکستان آپ کا ہے، کیونکہ اس کے حصول میں آپ کا حصہ مردوں سے کم نہیں ہے۔‘‘
بہر حال یہ کوئی آسان سفر نہیں تھا ۔ آگ اور خون کے دریا سے مردوں اور عورتوں دونوں کو گزرنا پڑالیکن عورتیں اس کے علاوہ بھی ظلم و ستم کا نشانہ بنیں۔ کتنی اغوا ہوئیں، کتنی کی آبرو ریزی ہوئی اور کتنی عورتوں نے عزت بچانے کے لئے کنووٗں میں چھلانگ لگا دی۔
تقسیم کے وقت انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔ محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان نے مسلم لیگ کی دیگر خواتین کے ساتھ مل کر کیمپوں میں مقین گھرانوں کی آبادکاری کے لئے کام کیا۔ عورتوں کو اپنا دفاع سکھانے کے لئے بیگم رعنا لیاقت علی خان نے ویمن نیشنل گارڈز بنائی اور پاکستانی خواتین فوجی تربیت حاصل کرنے لگیں لیکن رجعت پسند حلقوں کے دبائو کی وجہ سے اس ادارے کو جلد ہی ختم کر دیا گیا۔ پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں خواتین کی نمائندگی بیگم جہان آرا شاہنواز اور بیگم شائستہ اکرام ا للہ کر رہی تھیں ۔
ان دونوں خواتین کی کوششوں کے نتیجے میں ’’ شریعت کا اسلامی پرسنل لا منظور ہوا۔ مقننہ میں موجود مرد حضرات اس قانون کے بارے میں تحفظات رکھتے تھے کیونکہ اس میں وراثت میں عورتوں کے حق کو تسلیم کیا گیا تھا۔یہ قانون سارے شہریوں کو خواہ وہ مرد ہوں یا عورت مساوی معاوضے، مساوی مقام و مواقع کی ضمانت دیتا تھا۔ اسمبلی کے اندر اور باہر عورتوں کی جدو جہد کے نتیجے میں بالآخر 1948میں یہ قانون منظور ہو گیا اور 1951میں نافذالعمل ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ زمینداروں اور وڈیروں نے عورتوں کو زمین اور جائیداد میں وراثت کے حق سے ہمیشہ محروم رکھا۔ (جاری ہے)