• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طاہر اختر میمن

گدھا کھیت میں گھاس چر رہا تھا ، اچانک کہیں سے ایک بھوکا بھیڑیا ادھر آنکلا۔ گدھے کو دیکھ کر بھیڑئیے کی رال ٹپکنے لگی، گدھا اسے دیکھ کر بھاگنے کے لیے پر تولنےلگا۔ بھیڑیئے نے غراتے ہوئے کہا ، ’’بھاگ کر کہاں جائے گا، میں تجھ سے زیادہ تیز دوڑکر پکڑ لوں گا، اس لیے خود ہی میرے پاس آجا، میں صبح سے بھوکا ہوں، کوئی شکار ہاتھ نہیں لگااور تو ہری ہری گھاس چر رہا ہے۔‘‘ اب تو ملا ہے، چل ادھر آ، میرےپیٹ بھرنے کا سامان کر‘‘۔ یہ سن کر گدھے کو اپنی موت سامنے نظر آنے لگی لیکن اسے چالاکی سوجھی۔

اس نے لنگڑاتے ہوئے چند قدم آگے بڑھائے اور بڑے زور سے ہائے کرکے رک گیا اور بھیڑیئےسے درد بھرے لہجے میں بولا ’’اوہ! اوہ! جناب بھیڑیئے صاحب! آپ مجھے ضرور کھا لینا،مگر مہربانی کر کے میرے کھر میں سے یہ کیل تو نکال دیجئے، شدید تکلیف ہو رہی ہے، ہائے میں مرا ہائے ۔‘‘ بھیڑیئے نے کہا ’’بھلا مجھے کیا ضرورت ہے کہ تجھ پر رحم کروں، تیرے پاؤں کی کیل نکالوں۔‘‘ گدھے نے کہا ’’جناب! آپ کے بھلے کے لئے کہہ رہا ہوں، فرض کیجئے آپ مجھے کھانا شروع کردیتے ہیں اور اگر یہ کیل آپ کے حلق میں اٹک گئی تو؟‘‘

بھیڑئیے نے ذرا فکر مندی سے سوچا کہ گدھا کہتا تو واقعی ٹھیک ہے، جب یہ چھوٹی سے کیل اس کے پاؤں میں اتنی تکلیف دے رہی ہے توخدا نخواستہ اگر میرے حلق میں اٹک گئی تو میرے حلق کا کیا حشر ہوگا؟ میں تو مفت میں مارا جاؤں گا، چلو ٹھیک ہے، اس کی کیل نکال کر ہی اسے کھاؤں تو اچھا رہے گا۔ اس نے بے صبری سے گدھے سےکہا، ’’لاؤ اپنا پاؤں‘‘ ۔ گدھے نے فوراً اپنا ایک پیر ذرا اوپر اٹھا لیا۔ بھیڑئیے نے کہا ’’بتاؤ کہاں ہے کیل، مجھےتو نظر نہیں آرہی‘‘ گدھے نے پھر ایک بار ہائے کہا اور بولا،’’ذرا قریب آکر غور سے دیکھئے جناب، ہائے میں مرا۔‘‘

جیسے ہی بھیڑیا کیل دیکھنے کے لئے گدھے کے قریب آیا، اس نے اپنے دوسرے پاؤں سے بھیڑئیے کے منہ پر پوری طاقت سے لات رسید کی۔ لات اتنے زور سے لگی کہ بھیڑیا دور جاگرا اور اس کے سارے دانت ٹوٹ گئے، جبڑے سے خون بہنے لگا۔ زخمی ہونے کے بعد اس میں اٹھنے کی بھی ہمت نہیں رہی، وہ گدھے کو کیسے کھاتا۔

وہ تکلیف سے تڑپتا رہا جب کہ گدھا دور کھڑا تماشا دیکھتا رہا۔ درد سے تڑپتے ہوئے وہ دل میں کہہ رہا تھا، ’’افسوس! اس گدھے نے مجھے دھوکے سے مارا، اس نے کیل لگنے کا بہانہ کیا تھا، میں بھی کتنا بے وقوف ہوں جو اس کی باتوں میں آگیا، افسوس،اس کے گوشت سے پیٹ بھرنے کی بجائے اپنے دانت ہی تڑوا بیٹھا۔‘‘

تازہ ترین