مولاناابوالکلام آزاد کی سوچ اتنی آزاد نہیں تھی جتنا اکثر لوگ ان کے بارے میں سوچتے ہیں در اصل ان کی سوچ کانگریسی تھے جو کہ نہرو کی فکر سے ہم آہنگ تھی۔ نہرو نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان جغرافیائی، سیاسی اور معاشی طور پر اس قابل نہ ہو سکے گا کہ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہو سکے لہٰذا وہ واپس بھارت سے آ ملے گا۔ مولاناابوالکلام آزاد اسی پروپیگنڈے کو بڑھاوا دیتے رہے۔ پاکستان کے متعلق جو پشین گوئیاں ان سے منسوب کی جاتی ہیں تمام سیاسی بغض اور منفی جذبات پر مبنی ہیں۔ وہ ہندوستان کی تقسیم کے مخالف تھے لہٰذا پاکستان کو غلط اور ناقابلِ عمل قرار دینے کی سعی کرتے رہے۔ بعد ازاں بھارت کے وزیرِ تعلیم بن گئے۔ ظاہر ہے ایک مسلمان کو کانگریسی حکومت میں یہ منصب یونہی نہیں مل گیا۔
عین ممکن ہے میرا اندازہ غلط ہو مگر حقائق بتاتے ہیں کہ بھارت کے مسلمانوں کو پاکستان کے مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کی قابلِ اعتراض حرکت بھی مولاناابوالکلام آزاد سے سر زد ہوئی۔ انہوں نے یہ بات کہی کہ برِصغیر کے مسلمان بھارت کے مسلمانوں کو چھوڑ کر خود پاکستان چلےگئے ہیں۔ غیرممالک میں رہنے والے پاکستانی جانتے ہوں گے کہ وہاں بسنے والے بھارت کے مسلمان اکثر یہ شکوہ کرتے رہتے ہیں۔ اگر مولانا اتنے زرخیز ذہن کے پر خلوص دانا مسلمان تھے جنہیں برِصغیر کے مسلمانوں کی بہت فکر تھی تو جہاں انہوں نے پاکستان کے بارے میں منفی پشین گوئیاں کیں وہاں انہیں زیادہ شد و مد سے بھارت کے مسلمانوں کے بارے میں آگاہی دینی چاہئے تھی کہ آنے والے دنوں میں ان کی حالتِ زار کیا ہو گی۔ کیسے ان پر زندگی تنگ کر دی جائے گی۔ صرف وہ بچیں گے جو ہندوانہ طرزِ زندگی اپنائیں گے مگر انہوں نے ایسی کوئی پشین گوئی نہ کی۔ آج بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی حالت ہمارے سامنے ہے۔ اس سے مزیدیہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے بیانات کانگریس کو خوش کرنے کے لئے تھے۔
مولانا نے فرمایا کہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں کوئی قدرِ مشترک نہیں سوائے اس کے کہ اِن خطوں کے عوام خود کومسلمان کہتے ہیں۔ ان کی اس بات سے تاثر ملتا ہے وہ دو قومی نظریہ کے مخالف تھے۔ اور شاید وہ یہاں کے مسلمانوں کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے تھے کیونکہ انہوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ یعنی کہتے ہیں مگر شاید ہیں نہیں۔ انہوں نے یہ پشین گوئیاں شورش کاشمیری کے مجلے چٹان کو دیے گئے انٹرویو مورخہ ۱۹۴۶میں کیں۔
بغور دیکھا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ کسی بھی پشین گوئی میں منطق نہیں بس ایک دعویٰ ہے۔ مثلاً مشرقی پاکستان میں امن قائدِاعظم اور لیاقت خان کی زندگیوں تک ہی ہے۔ مطلب یہ کہ مضبوط رہنماؤں کی حیات میں سازشوں کی کامیابی ممکن نہیں۔ یعنی کمزور لمحوں کا انتظار کیا جائے گا اور اُس وقت انتشار پھیلانے کے بھارتی منصوبے کا آغاز کیا جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ مولانا صاحب نے یہ بھی کہا کہ چھوٹا سا واقعہ بھی ناراضی اور اضطراب پیدا کر سکتا ہے۔ بھارت نے ان کے اشارے کو خوب سمجھا اور ایسا کرنے کی منصوبہ بندی کر لی اور یہی ہوا کہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے باقاعدہ منصوبے کے تحت مشرقی پاکستان میں ایسے واقعات کروانے شروع کر دیے جو انتشار کا باعث بنے۔
اگر وہ پاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ مخلص ہوتے تو منفی پشین گوئیوں پہ اکتفا نہ کرتے بلکہ اس مملکتِ خداداد کی بقا اور فلاح کے لئے تجاویز دیتے۔ کئی باتیں ان سے غلط بھی منسوب کی گئی ہیں۔ مولانا آزاد نے پاکستان کے بارے میں ایسی کوئی پشین گوئی نہیں کی تھی کہ یہ سیکورٹی ریاست بن جائے گا۔ اگر ایسا دعویٰ کیا بھی تھا تو یہاں کے رہنماؤں اور عسکری اداروں کو محتاط ہو جانا چاہئے تھا۔ ہمیں اس بات کو غلط ثابت کرنے کی سعی کرنی چاہئے۔ ہمیں سیکورٹی ریاست سے فلاحی ریاست کی جانب سفر تیز تر کرنا چاہئے۔
اس بحث سے نکل کر کہ مولاناابوالکلام آزاد نے یہ پیشگوئی کی تھی یا نہیں، ہمیں اپنی 74الہ تاریخ اور حال کا ناقدانہ جائزہ لینا چاہئے۔ کھلے دل اور ذہن سے حقائق کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری تاریخ اندوہناک سیاسی و آئینی غلطیوں سے عبارت ہے۔ نعرے تو بہت بلند کیے جاتے رہے لیکن سفر الٹے پاؤں ہی طے کرتے رہے۔ ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ جہاں سیانوں اور سیاستدانوں نے پاکستان کو اپنی حرص اور حماقتوں سے گزند پہنچائی، سول و ملٹری کے سرکردہ لوگوں نے بارہا اس سے کھلواڑ کیا۔ کھوکھلا کیا۔ ان تمام عناصر کا ہدف عوام ہی رہے جنہیں اندھیرے میں رکھا گیا اور گمراہ کیا گیا۔ مسئلہ دراصل معصوم عوام ہیں جو میمنوں کی طرح منمناتے ہوئے ہر آواز کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ عوام اپنی آنکھیں اور ذہن وا کر لیں تو واہ واہ ہو جائے گی۔ ہر مسئلے کو گریبان سے پکڑنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی۔ کوئی انہیں ہنکا کر تباہی کے راستے پہ نہیں چلا سکے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)