زندگی ان دِنوں بے اماں صحنِ گُلشن میں پھر
سفر میں ہے بے رنگ لمحوں کے یُوں
جس طرح ہو بھنور میں کوئی نا خدا
اپنی کشتی لیے
اِک سمندر کی بے رحم موجوں سے مایوس سا
پھر کوئی یہ کہے
چاند، شبنم، ہوا
بادلوں کا سماں، پَر بَتوں پر وہ اُڑتا ہوا
اپنی ان جانی منزل کی جانب رواں
جھیل پر جن کا پَر تو لگے دل نشیں
یا کوئی جسم آئے نظر آتشیں
یا کوئی جھرنا چِیرے پہاڑوں کا دِل
وادیاں سب سمن پوش ہوں
چاکِ دامانِ غم بھی کبھی جائے سِل
ناگہاں جس کو اپنی محبّت کہیں جائے مِل
تو کرے اپنی نظموں کو آراستہ
ایسے مضمون سے
ایسے عنوان سے
صحنِ گلشن میں جب ہر کوئی مضمحل
پھر بھلا ایسے مضمون کیسے لکھوں؟؟