• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے یوم آزادی پر جب منی پاکستان کراچی میں شہریوں کا جشن بامِ عروج پر تھا،عین اسی وقت کراچی کے علاقے مواچھ گوٹھ میں سفاک قاتلوں نے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک خاندان کے 13افراد کو خون میں نہلادیا،ان میں 7خواتین اور6بچے شامل ہیں،یہ بدقسمت خاندان دعوت میں شرکت کے بعد شہ زور منی ٹرک میں اپنی بستی شیرپائو کالونی لانڈھی آرہاتھاکہ مواچھ گوٹھ میں ان کی گاڑی کو کریکر یا دستی بم کا نشانہ بنایاگیا،سوات پختونخواکے باشندوں کے ہاں رسم ہے کہ سسرال والے اُس خاندان کو شادی کے ساتویں روز اپنے ہاں مدعوکرتے ہیں جن کے ہاں سے بیٹی بیاہی گئی ہو، اس دعوت میں خواتین اور بچے شرکت کرتے ہیں اس لئے واقعہ میں 7خواتین اور 6بچے شہید ہوئے۔یہ طالب علم سوچ رہا تھا کہ اپنے ٹوٹے پھوٹے کالم میں یوم آزادی سے متعلق کچھ لکھنے کی سعی کرونگا،لیکن جیسا کہ حضرت علی کرم ﷲ وجہہ کا قول ہےکہ میں نےارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا،اب شکستہ دل کے ساتھ قلم سےقرطاس پر حروف منتقل کرکےاس سانحہ پر آپ سے رابطہ کئے ہوئے ہوں۔میںنے 14اگست کو منائے جانے والے جشن کا اپنے تئیںایک جائزہ لیا تھا۔یہ جشن متوسط طبقے اور مفلوک الحال لوگوں نے ہی منایا، اشرافیہ حسب معمول رات بھر رنگ ونورکی دیگر محافل میں مصروف رہنے کے بعد دن بھر سوتی رہی ۔کراچی ڈیفنس سمیت کسی پوش علاقےمیں کسی کوٹھی پر کوئی پرچم نظرنہیں آیا لیکن غریبوں نے اپنے گلیوں محلوں تک کو سجایا ہواتھا،سوال یہ پیداہوتاہے کہ پھر پاکستان میں اپنے ملک سے محبت کا والہانہ اظہار کرنے والے یہ غریب ہی کیوں تختہ مشق بنے ہوئے ہیں،یوم آزادی والے روز ہی اخبارات میں غریب کش مہنگائی کی خبریں بھی شائع ہوئیں،انگریزاستعمار سے آزادی کیلئے برسوں جیل میں رہنے ،جائیدادیں نیلام کرنےاور مصائب سے دوچاررہنے والوں نے کیا اس خاطر آزادی حاصل کی تھی کہ حاکم وہ اشرافیہ ہوگی جس کا جنگ آزادی میںناخن تک کام نہ آیا ہو،آج کیوں ایک طرف مہنگائی مافیا نے ریکارڈ مہنگائی کی وجہ سے غریب کا جینا محال کررکھاہے تودوسری طرف دہشت گردوں نے ان سے سانس لینے کا اختیار بھی چھین لیا ہے ، وہ جب چاہتے ہیں اسے مقراض آہن سے منقطع کردیتے ہیں۔یوم آزادی کے دن بھی یہی ہوا،13بے قصور بچوں اورخواتین نے تڑپتے تڑپتے جان ،جانِ آفریں کے سپرد کردی۔میں اس روز رات گئے اپنے دفترسے گھر لوٹا تو نیندکے انتظارمیں سوچافیس بک پر ہنستے مسکراتےچہروں کو جشن مناتے دیکھا جائےکہ یکایک اے این پی کے نورﷲ اچکزئی کی ایک لائیوویڈیو پر نظر پڑی،جس میںاے این پی کے صوبائی جنرل سیکریٹری یونس خان بونیری ،ضلعی صدرعبدا لسبحان سمیت اے این پی کے سینکڑوں کارکن نظرآئے جو سول اسپتال میں بھاگ دوڑ کر رہے تھے،میں نےوہاں موجود ایک دوست کو فون کیا،معلوم ہواکہ اس سانحہ میں اے این پی کے راہ نمافرمان علی کی تین بہنیں،تین بھتیجے، دو بھتیجیاں، دوبھانجے، ایک بھانجی،ایک بھابھی،ایک بہن کی نواسی شہید ہوئی ہے،ایک صاحبزادی اور ایک بھابھی اسپتال میں زیر علاج ہیں، فرمان علی کی ایک بہن کی شادی جماعت اسلامی کےمعراج صاحب سے ہوئی تھی،اس سانحہ میں فرمان علی کی یہ بہن و معراج صاحب کی اہلیہ و نواسی بھی شہید ہوئیں۔صبح شمروز خان ایڈوکیٹ کے ہمراہ برادر فرمان علی سے تعزیت کیلئے شیرپائوکالونی پہنچاتو وسیع وعریض اسٹارگرائونڈ میں سر ہی سر نظر آ رہے تھے، اے این پی ملیر کے صدر کچکول خان ،شفیع ترنگزئی ودیگر انتظامات کی نگرانی کررہے تھے،جبکہ وہاں موجود ہر شخص غم زدہ ،واقعہ پر حیران وپریشان کہ نہ جانے پاکستان کے یوم آزادی پر ان معصوموں کا خون بہانا کیوں ضروری سمجھا گیا، جتنےمنہ اُتنی باتیں۔،تادم تحریر اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس حقیقت سامنے نہیں آئی ہے،اس کا بھی تعین نہیں ہوسکاہےکہ گاڑی پر کریکرپھینکاگیا،بم یا کوئی اور بارودی مواد۔ سوال یہ ہےکہ ایسے دن جب جگہ جگہ پولیس تعینات تھی، دہشت گرد واردات کے بعد آسانی سے کیسے فرار ہو گئے،پشتومیں کہتے ہیں کہ جلتی وہ زمین ہے جہاں  آگ لگی ہو،کوئی اس غم زدہ خاندان سے پوچھ لے کہ ان کے دل پر کیا گزررہی ہے،کاش سرکار اس درد وغم کو محسوس کرتے ہوئے روایتی بیانات کی بجائے اصل ملزمان کو کٹہرےمیں لائے۔افسوسناک امریہ بھی ہے کہ پی ڈی ایم سمیت بڑی سیاسی ومذہبی جماعتوں نے اس دردناک سانحہ پر احتجاج تودرکنار روایتی بیانات کو بھی غیر ضروری سمجھا،کیا ابن آدم کاخون اُن سیاسی سرگرمیوں سے بھی زیادہ ارزاں ہوگیاہےجن کیلئے یہ لوگ شب وروز اپنے آپ کو ہلکان کئے رکھتے ہیں۔کاش اس عظیم سانحہ پر اتنی بے رخی وبے حسی نہ دیکھنے میں آتی!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین