حنیف عابد ؔ
گزشتہ روز عائشہ کے گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے جس کی وجہ سے وہ رات کو دیر سے سوئی تھی۔ جب اس کی امی نے صبح اسے اٹھایا تو وہ اٹھنے میں آنا کانی کرنے لگی ۔ کافی کوشش کے باوجود بھی جب وہ نہیں اُٹھی تو اس کی امی نے اسے سونے دیا ۔ دس بجے کے قریب عائشہ اٹھی تو اپنی امی سے کہنے لگی آپ نے مجھے نہیں اُٹھایا، اسکول کی چھٹی ہوگئی ۔عائشہ کی امی نے غصے سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اٹھانے کے جتنے طریقے مجھے آتے تھے میں نے سب استعمال کیے تھے ،لیکن تم اٹھی ہی نہیں ۔کوئی نیا طریقہ ہو تو مجھے بتادو، آئندہ ویسے ہی اٹھا دیا کروں گی۔
عائشہ یہ سن کر شرمندہ ہوئی لیکن کچھ بولی نہیں چپ چاپ کچن میں چلی گئی ۔رات کا کھانا ختم کھانے کے بعد جب سب ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے تھے کہ عائشہ نے امی کو بتایا کہ اسے کچھ چیزیں چاہئیں آپ کل لادینا۔ اس کی امی نے پوچھا، کون سی چیزیں چاہئیں ؟ عائشہ نے ایک کاغذ اپنی امی کی جانب بڑھا دیا۔ انہوں نے کاغذ پر ایک نظر ڈالنے کے بعد پوچھا ان چیزوں کی تمہیں کیا ضرورت پڑ گئی ؟عائشہ نے بتایا کہ جشن آزادی کا دن تو گزر گیا لیکن اب اسکول میں ایک تقریب منعقد ہوگی ، جس میں ہر کلاس اپنا اپنا پروجیکٹ ،ماڈل کی صورت میں پیش کرے گی ۔
عائشہ کی امی نے یہ سن کر خاموشی اختیار کرلی اور کاغذ ایک جانب رکھ دیا ۔اگلے دن شام ہوتے ہی عائشہ کو اس کی فہرست کے مطابق تمام سامان مل گیا۔ وہ اسے دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑی اور اپنی امی کے گلے لگ گئی ۔اس کی امی نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ جائو اپنا پروجیکٹ مکمل کرو۔ عائشہ سامان اٹھا کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔
تین دن تک عائشہ ضروری کام سے فارغ ہوتے ہی اپنا پروجیکٹ مکمل کرنے میں مصروف ہوجاتی۔ عائشہ کی دو اورہم جماعت بھی اس کے گھر آجاتیں ،تینوں مل کر پروجیکٹ کی تیاری میں جت جاتیں ۔تیسرے دن اللہ اللہ کرکے پروجیکٹ مکمل ہوگیا،جسے دیکھ کر اس کی امی نے بہت تعریف کی ۔ اسکول میں جشن آزادی کی تقریب جاری تھی،مہمان خصوصی، مہمان اعزازی سمیت اسکول کے پرنسپل و دیگر شخصیات اسٹیج پر بیٹھی تھیں۔ گراؤنڈ میں طلباء اوران کے والدین کی بڑی تعداد موجود تھی۔
اسٹیج پر اسکول کے پرنسپل سمیت کئی اساتذہ بھی بیٹھے تھے۔ اسکول کے سینئر استاد نے تقریب کے آغاز کا اعلان کیا، سب سے پہلے قومی ترانہ بجایا گیا، جسے سب نے کھڑے ہوکر گایا۔ اس کے بعد طلباء نے قومی یکجہتی کے حوالے سے ایک خوبصورت ’’ٹیبلو‘‘ پیش کیا۔ بعد ازاں اسکول کے طلباء میں تقریری مقابلہ ہوا۔ آخر میں اعلان ہوا کہ ہر کلاس کی جانب سے ماڈل پیش کیاجائے گا ۔
کلاس کا ماڈل پیش کیا گیا جسے دیکھ کر بچوں اور اساتذہ نے خوشی کا اظہار کیا ۔اب مرحلہ تھا ماڈل کی درجہ بندی کا ۔ کچھ دیر بعد اعلان ہوا کہ عائشہ کی کلاس کے ماڈل کو پہلی پوزیشن ملی ہے ۔ ماڈل کا موضوع تھا ’’مٹی سے محبت‘‘ ۔ماڈل میں کشمیر میں بھارتی مظالم کو اجاگر کرنے کے لیے وادی ء کشمیر کا نقشہ بنا کر اسے خاردار تاروں کے ذریعے ڈھانپا گیا تھا جبکہ وادی کے لوگ مٹی ہاتھ میں اٹھا کر اسے اپنے زخموں پر مل رہے تھے ۔ ماڈل دیکھ کر سب حیران ہوگئے کہ کم عمر طالبات نے کتنی خوب صورتی سے کشمیر میں بھارتی مظالم کو دکھایا ہے۔ عائشہ اور اس کی دوستوں کو سب مبارک باد دیتے ہوئے ان پر فخر کررہے تھے۔