میرا خیال ہے آج میں ساری ماؤں، میرا مطلب ہے بیٹیوں کی ماؤں کو یہ نصیحت کر ہی دوں جو شاید آج تک کسی نے نہیں کی ہو گی کہ براہ مہربانی اپنی بیٹیوں کو کھانا پکانے میں ماہر بنانے کی کوشش ہرگز نہ کریں۔
میری یہ نصیحت بیٹیوں کی ماؤں کیلئے تو حیرت کا باعث ہو گی ہی لڑکوں کی مائیں تو یقیناً ڈنڈے بلکہ پستول لئے میری تلاش میں نکل پڑیں گی۔ خود سے ہانڈی میں چمچہ چلانا آئے نہ آئے، آنے والی نیک بخت سے تو ایک مکمل شیف ہونے کی توقع باندھ ہی لی جاتی ہے اور دنیا بھر کی لڑکیوں کو اس ہنر میں طاق کرنے کیلئے کیا کیا مفروضات گھڑ لئے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ مرد کے دل کا راستہ معدے سے ہو کر جاتا ہے، حد ہو گئی۔ لے کے پوری میڈیکل سائنس ہی گڑبڑ کر دی اور یوں بھی معدے کے راستے دل تک پہنچنا خاصا غیر رومانوی سا لگتا ہے یا پھر یہ نصیحت کہ جو عورت خود اچھا کھانا بنانا نہیں جانتی وہ کسی خانساماں یا شیف سے بھی اچھی طرح کام نہیں لے سکتی۔ان سب باتوں کے برعکس میرا موٴقف یہ ہے کہ جس لڑکی یا عورت کو خود اچھا کھانا پکانا آتا ہے اس کے نصیب میں ساری عمر کے لئے کچن کی غلامی لکھ دی جاتی ہے، یہ میرا اپنا تجربہ ہے۔ حالانکہ میری ماں نے تو خود کوئی شعوری کوشش نہیں کی تھی، مجھے کھانا پکانے میں طاق کرنے کی کیونکہ ہمارے گھر کی روایتوں میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ جس گھر میں اچھا اور مزیدار کھانا بنتا ہو اور جہاں کی خاتون خانہ خود اچھا کھانا پکانا جانتی ہو وہاں کی بیٹیاں خود بہ خود ہی اچھا کھانا پکانا سیکھ جاتی ہیں لیکن میرا معاملہ تو دوسرا تھا۔ مجھے تو بچپن سے ہی پڑھائی، لکھائی سے زیادہ سلائی، بنائی اور روٹیاں بیلنے سے دلچسپی تھی۔ ابھی کچن تک رسائی نہیں ہوئی تھی اور میں چپکے، چپکے سب کی آنکھ بچا کر کھانا پکانے والے کی منت سماجت کر کے پیڑے بنانے اور پھلکے پکانے کی اپنی خواہش پوری کرتی تھی۔ میری یہ چوری میرے والد صاحب فوراً پکڑ لیتے تھے۔ ”اتنی گول اور ہلکی، پھلکی روٹی کوئی دوسرا پکا ہی نہیں سکتا“ اور میری پیشی فوراً عدالت میں ہو جاتی تھی۔ ”ارے مڈل پاس کرتے ہی اس کی شادی کر دیں گے، اسے کچن میں گھسنے کا بڑا شوق ہے“۔ اس زمانے کے حساب سے بے حد پڑھی، لکھی میری خالہ بڑی خوشی، خوشی میرے مستقبل کا فیصلہ سناتیں۔ انہوں نے مڈل کے بعد جے وی (جونیئر ورنیکلر) اور ایس وی (سینئر ورنیکلر) کر رکھا تھا اور کسی اسکول میں ہیڈ مسٹریس کے عہدے پر فائز تھیں۔
میرے اسکول میں خانہ داری کی کلاس میں (ہمارے زمانے میں چھٹی سے آٹھویں تک خانہ داری سکھائی جاتی تھی جس میں کھانا پکانے، پیش (Serve) کرنے سے لے کر کپڑوں کی دھلائی، رنگائی تک سب کچھ ہی شامل تھا)۔ خیر تو میری کلاس ٹیچر میری سجی ہوئی ٹرے ممتحن کو دکھا، دکھا کر پھولی نہیں سماتی تھیں۔ ”میڈم دیکھیں تو… چاول کس خوبصورتی سے پھولوں کی طرح کھلے ہوئے ہیں“ اور میڈم واقعی چاولوں سے زیادہ میرے منّے سے سراپے پر نظر دوڑاتے ہوئے پورے نمبر دے دیتیں۔ انہیں کچھ اندازہ نہیں تھا کہ چاول ابالنا تو ایک کشمیری بیک گراؤنڈ والی بارہ سالہ لڑکی کیلئے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ واقعی روایت سچی تھی۔ میں نے گھر میں روٹی بیلنے کے سوا کبھی کوئی کام نہیں کیا تھا اور کھانا پکانے کی باقاعدہ تربیت تو کبھی کسی نے نہیں دی لیکن ہوا یہ کہ جب بھی اور جہاں بھی کوئی چیز پکائی، لوگ انگلیاں چاٹتے ہی رہ گئے۔ ماں، باپ تو محبت کرنے والے ہوتے ہیں، میرے تو ساس، سسر بھی میری پکائی ہوئی چیزوں کے مداح تھے بلکہ اپنے آخری دنوں میں میری ساس تو صرف میرے ہی ہاتھ کا پکا ہوا کھانا، کھانا چاہتی تھیں۔
اور اصل خرابی یہیں سے شروع ہوتی ہے۔ جب لوگوں کو ایک بار اچھے اور مزیدار کھانے کی چاٹ لگ جائے تو پھر انہیں کسی دوسرے کا پکا ہوا پسند ہی نہیں آتا۔ اس میں میرے میاں اور بچّوں کا کوئی قصور نہیں۔ خود مجھے کسی دوسرے کے ہاتھ کا پکا کھانا مشکل سے ہی پسند آتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں اوپر کا کام کرنے والے لڑکے کو بھی وہ کھانا کھانے میں کافی عار ہوتا ہے جو میں کوشش کر کے کسی خانساماں سے پکواتی ہوں تاکہ مجھے کچھ وقت تو کچن کی غلامی سے نجات ملے لیکن یہ آزادی الٹی گلے پڑ جاتی ہے جب کھانے کی میز پر سب کے منہ لٹکے ہوئے ہوتے ہیں اور اتنے پیسے خرچ کر کے پکوائی ہوئی چیزیں جوں کی توں پڑی رہتی ہیں۔ تھک ہار کر پھر میں ہوتی ہوں اور پھر وہی ڈوئی ہانڈی!
وہ کیا چیز ہے جو کھانوں کو ذائقہ دار یا بدمزہ بناتی ہے؟ میں نے اس پر بہت غور کیا ہے۔ بظاہر ایک ہی طریقے سے بنائی گئی چیزیں اور ایک جیسے اجزاء پر مشتمل کوئی ڈش… ایسی ہوتی ہے کہ کھانے والے واہ واہ کر اٹھتے ہیں جبکہ کسی دوسرے کی پکی وہی ڈش کوڑے دان میں پھینکنے کو جی چاہتا ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں کے ہاتھ میں ذائقہ ہے اور فلاں کے ہاتھ میں ذائقہ نہیں… لیکن مجھے یہ بات بالکل فضول اور من گھڑت لگتی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ کھانا پکانا پوری توجہ، شوق اور دلچسپی مانگتا ہے۔ یہ ایک فن ہے جس میں خون جگر کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک آپ شوق اور دل کی خواہش سے کوئی چیز نہ پکائیں، اس میں کسی اچھے فن پارے کی خوبی آ ہی نہیں سکتی۔ اسے آپ آسانی سے یہ سمجھ لیں کہ جب تک پکانے والی یا پکانے والے کو خود پکانے میں مزہ نہ آ رہا ہو، کھانا مزیدار ہو ہی نہیں سکتا اور یہ بھی سچ ہے کہ مزیدار کھانے کے بغیر زندگی میں بھی کوئی مزہ نہیں ہوتا۔
اب یہ فیصلہ آپ کا ہے کہ آپ اپنی بیٹی کو زندگی بھر کچن کی غلامی کرانا چاہتے ہیں یا پھر اسے ایک بے روح اور بیزار لوگوں پر مشتمل گھرانے کا فرد بنانا چاہتے ہیں کیونکہ یہ بھی سچ ہے کہ جس گھر میں گھر والی کی دلچسپی کچن سے نہیں ہوتی وہاں وہ بے اختیار امڈ کر آنے والی خوشیاں بھی ذرا کم ہی نظر آتی ہیں جو ایسے مطمئن افراد کے آس پاس منڈلاتی ہیں جن کے معدے اور ذہن دونوں آسودہ ہوتے ہیں۔