عقیل دانش
1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں یکی تاریخم یں چند نام روشن ستارو کی طرح جگمگارہے ہیں۔ رفیع، دامن کش اور معتبر، ان ناموں کے بغیر ہماری سیاسی، سماجی، مذہبی اور ادبی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی اور انہی ناموںمیں ایک نمایاں اور موقر نام ہے رئیس الاحرار مولانا سید فضل الحسن حسرت موہانی کا۔
جب سے کہا عشق نے حسرت مجھے
کوئی بھی کہتا نہیں فضل الحسن
انہوںنے ادب، تنقید، سیاست، شاعری، سماجیات، مذہب اور صحافت جیسے شعبوںمیں پانی ذہانت، زکاوت سلیم الطبعی، عزم صمیم، دیانت، اصول پلندی اور ژرف نگاہی کا لوہا منوایا۔ وہ بظاہر حسرت تھے لیکن اس حسرت کو انہوں نے ’’عشق‘‘ کی آنچ دے کر انباط جاوداں بنادیا۔ ایسا انبساط جس نے انہیں زندگی بھر فعال، مستعد، آمادہ اور باعمل رکھا اور قوم و ملک کی خدمت کا وہ جذبہ اور وجدان عطا کیا جس نے خود پسندی، بے اصولی، بددیانتی، عیش کوشی، زردیدگی، جاہ طلبی اور مطلب پرستی و مصلحت آمیزی کے تپتے ہوئے صحرا میں آزادی، حریت، اصول پرستی، خدمت، قناعت، دیانت اور صداقت کے ایسے پھول کھلائے جن کی خوشبو سے آج بھی دل والوں کا مشام جاں معطر ہے ان کے اسی وجدان نے طرفی طبع کے وہ چراغ جلائے جس کی روشنی ستم کے ظلمت کہ وہ کوآج بھی منور کررہی ہے
ہے مشق ستم جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی
ملگجی شیروانی، کمامنی ٹوٹا چشمہ،سالخوردہ ترکی ٹوپی، اٹنگے پاجامے اور معمولی کرمچ کے جوتے پہنے ہوئے برصغیر کی جنگ آزادی کا یہ ایک ہیرو تاریخ کا وقار تھا۔ ایسا کجکلاہ جس نے غیر منقسم ہندوستان کے کروڑوں لوگوں کو زندگی کا سلیقہ سکھادیا۔ حاملان ذوق سلیم! سیاست، دانشمندی، بردباری، ژرف نگاہی اصول پرستی صداقت اور دوربینی کا نام ہے۔ بدقسمتی سے جسے دنیا والوںنے بے اصولی، دورنگی، بددیانتی اور مفاد پرستی کا رنگ دیدیا لیکن حسرت نے برصغیر کی تاریخ میں سیاست کو عبادت کا درجہ دے کر اس میں صداقت و دیانت کے ایسے رنگ بھرے جس سے ،
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
ان کی سیاسی زندگی کم و بیش نصف صدی پر مشتمل ہے، گویا یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔ اور اس نصف صدی میں انہوں نے مادر علمی جامعہ علی گڑھ سے لے کر آزاد ہندوستان کی لوک سبھا تک دیانت و صداقت کے ایسے نقوش ثبت کئے جو ہماری تاریخ کا حصہ بن گئے۔اردو ئے معلی کے صفحات پر اظہار حق کے جرم میں وہ متعدد بار پابند زنداں ہوئے۔ مسلمانوں میں حسرت پہلے سیاسی قیدی تھے۔ ایسے سیاسی قیدی جس کے ساتھ مجرموں سے بھی زیادہ بدتر اور وحشیانہ سلوک کیا جاتا تھا لیکن حسرت کے پائے استقامت میں کبھی لغزش نہ آئی۔
انہوں نے سودیشی تحریک کے ضمن میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن نہ وہ جھکے نہ بکے۔ ان کے لئے سودیشی اشیاء کے استعمال کا نعرہ صرف نعرہ نہ تھا بلکہ ایمان تھا۔ دلی کے کڑکڑاتے جاڑوں میں انہوںنے دلی میں ڈاکٹرانصاری کے مکان میںایک پوری رات جاگتے ، لرزتے اور سردی کھاتے گزاری لیکن بستر پر موجود گرم کمبلوں کو صرف اس لئے استعمال نہیں کیا کہ ان پر ’’ساختہ انگلستان‘‘ کی مہر لگی ہوئی تھی جبکہ اسی مکان میں سودیشی تحریک کے حامی کئی کل ہند شہرت کے حامل سیاستداں یہی کمل اوڑھے رات بھر نیند کی وادی میں کھوئے رہے
وفاداری بشرط استواری کا صل ایماں ہے
وہ پہلے سیاسی رہنما تھے جنہوںنے آزادی کامل کا نعرہ لگایا اورا پنی ایک تقریر میں فرمایا ’’ہندوستان کے متعلق میرے سیاسی نصب العین کا حال سب کو معلوم ہے کہ میں آزادی کامل سے کم کسی چیز کو کسی حال میں منظور نہیں کرسکتا اور آزادی کامل بھی وہ جس کا دستور اساسی روسی یا امریکا کی طرح لازمی طور پر جمہوری ترکیبی اور لامرکزی ہو اور جس میں مسلم اقلیت کے تحفظ کا پورا سامان بھی بہ صراحت موجود ہو‘‘
لوگ کہتے ہیں کہ مولانا اشتراکی تھے یا اشتراکیت سے متاثر تھے لیکن ان کا عمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ اشتراکیت کے صرف اسی پہلو سے متاثر تھے جس میں انسانی مساوات کی جھلک نظر آتی ہے اور مساوات محمدیﷺ کا پرتو ابھرتاہے۔ روضہ رسولﷺ پر متعدد باران کی حاضری ان کے اسی جذبے کی دلیل ہے وہ مصلحت کے عذر سے ہمیشہ گریزاں رہے۔
لگا دو آگ عند و مصلحت کو
کہ ہے بیزار اسی شے سے مرا دل
وہ کانگریس اور مسلم لیگ میں اسی شان سے رہے کہ ان کی منحنی آواز گاندھی جی اور قائد اعظم محمد علی جناح کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتی تھی اور اس کی وجہ مولانا کا کسی مصلحت کو خاطر میں نہ لانا تھا۔
حق سے یہ عذر مصلحت وقت پہ جو کرے گریز
اس کونہ پیشوا سمجھ، اس پہ نہ اعتبار کر
مولانا کی حق گوئی و بیباکی ہر سیاسی عہد میں شمشیر بے نیام رہی مولانا جمال میاں فرنگی محلی کے بقول ’’ہندوستانی پارلیمنٹ میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب حسرت کے علاوہ کوئی ممبر ایسا نہیں تھا جو مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرے۔ جونا گڑھ اور حیدرآباد پر ہندوستانی قبضے کے بعد تنہا مولانا حسرت موہانی نے ایوان پارلیمنٹ میں وہ باتیں کہہ دیں جو کروڑوں مسلمانوں کے دل میں تھیں لیکن کسی میں جرات اظہار نہیں تھی۔
انہوں نے سردار پٹیل کوان کے انتہائی عروج کے دور میں مخاطب کرتے ہوئے کہاتھا کہ یہ تم نے وہی کام کیا ہے جو ہیسٹنگز وازلی اور کلایو نے کیا تھا تم نے اپنی طاقت ور موجوں کے بل بوتے پر کمزور ریاستوں کی آزادیاں چھینی ہیں تمہارے محکمے پر خدا کی لعنت ہو۔ اس کجکلاہ فقیر نے ہندوستان کی سیاسی زندگی میں اپنی نحیف آواز کے باوجود اقتدار کے کئی ایوانوںمیں زلزلہ پیدا کردیا تھا۔
مولانا حسرت موہانی نے صدق فعال کی ایسی مثالیں پیش کی ہیں جن کی تقلید برصغیر کے سیاسی اور سماجی رہنمائوں کو آج بھی وقار اور اعتبار عطا کرسکتی ہے۔ وہ صبر و قناعت کا چلتا پھرتا مجسمہ تھے برصغیر کے اس عظیم رہبر نے ہمیشہ نجی اور سرکاری حیثیت میں ریل گاڑی کے تیسرے درجے میں سفر کیا ۔ جب بڑے بڑے لیڈر قوم کے غم میں ڈنر کھاتے تھے حکام کے ساتھ اور پارلیمنٹ کے تمام ممبرز حکومت کے پرتعیش مہمان خانوں اور دلی کے اعلی ہوٹلوںمیں قیام فرماتے تھے اور ہزاروں روپیہ اخراجات سفر اور قیام کی مد میں وصول کرتے تھے اس وقت یہ مرد مجاہد پرانی دلی کے کسی ڈھابے میں کھانا کھا کراور ایک چارپائی کرائے پر سونے کے لئے لے کرصرف اورصرف اسی کا معاوضہ وصول کرتا تھا۔
شوکت تھانوی مرحوم نے آل انڈیا ریڈیو کی طرف سے مولانا سے ریڈیوپر ایک غزل پڑھنے کی درخواست کی اور لکھنو ٔریڈیو کے سربراہ سے خصوصی معاوضہ 25؍ روپے منظور کرایا۔ غزل نشر ہونے کے بعد انہوںنے 25روپے کا چیک مولانا کی خدمت میں پیش کیا تو مولانا نے یہ کہہ کرو چیک واپس کردیا کہ ’’اب حسرت پر یہ وقت بھی آگیا ہے کہ اسے غزل پڑھنے کا معاوضہ قبول کرنا پڑے‘‘
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
سادہ، منکسر، متواضع، دوسروں کے کام آنے والے اور خدمت کو ایمان سمجھنے و الے حسرت نے زندگی کو نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ ایک سادہ اور سچے انسان کی طرح برتا بھی تھا۔ تمام تر نقاہت کے باوجود ان کی آنکھوں پر عشق کے رنگ اتر آتے تھے اور انہوںنے تمام رنگ محبوب کے پیراہن کو عطا کردیئے تھے۔ حسرت کا محبوب ہماری آپ کی دنیا کا چلتا پھرتا کردار ہے، اس لئے وہ چلچلاتی دھوپ میں کوٹھے پر ننگے پائوں حسرت سے ملنے آجاتا ہے۔
روح کو محو جمال رخ جاناں کرلیں
ہم اگر چاہیں تو زنداں کہ گلستاں کرلیں
زنداں کی مشقت مہینوں حسرت کو اس گلستان کی دید اور خوشبو سے دور رکھتی تھی لیکن جب اس کی یاد آتی تھی تو مسلسل آتی تھی
نہیں آتی تو ان کی یاد مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
حسرت نے لکھنو کی زبان میں دلی کا رنگ ملا کر بشاشت، عنائیت، بے ساختہ پن، رومان اور کیف کا ایسا مرقع پیش کیا کہ اردو غزل کانام روشن کردیا۔
ہے زبان لکھنو میں رنگ دہلی کی نمود
تجھ سے حسرت نام روشنی شاعری کا ہوگیا
اور شاعری کانام روشن ہونے کی بنیادی وجہ حسرت کے اشعار کا دل میں اتر جانا ہے
شعر دراصل وہی ہیں حسرت
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں
حسرت کی لکھی ہوئی اساتذہ کے دوادین کی شرحیں، ان کی ترتیب دیئے ہوئے تذکرے اورا ن کے تدوین کئے ہوئے شعری مجموعے ان کے ذوق انتقاد کی اعلی مثال ہیں۔ حسرت کی شاعری، صحافت، تنقید نگاری اور تذکرہ نویسی پر کچھ لکھنے کے لئے حسن علمی بصیرت اور ادبی ژرف نگاہی کی ضرورت ہے میں اس سے محروم ہوں
سفینہ چاہے اس کربیکراں کے لئے
برصغیر میں آج اقدارکا جو زیاں ہوا ہے۔ روانیوں کا جو خون بہا ہے، خوب کو دست اور دشت کو خوب کہنے کا جو رجحان پیدا ہوا ہے اسے دیکھ کر سن کر اور پڑھ کر حسرت کا یہ شعر مجسم ہوجاتا ہے۔
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا ا حسن کرشمہ ساز کرے
کم عملی کے باوجود پورے یقین سے کہتا ہوں کہ جس قوم میں حسرت جیسے انسان پیدا ہوجائیں وہ قوم اور معاشرہ حالات سے آنکھیں چار بھی کرسکتے ہیں اور حالات کو بدل بھی سکتے ہیں۔ حسرت بلامبالغہ ایک بڑے آدمی تھے برصغیر کے ایسے فرزند جو روز روز پیدا نہیں ہوتے۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتاہے ملک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں