• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہاکی میں تباہی کے کئی عوامل ہیں
باسکٹ بال ایونٹ کے افتتاح پر خالد جمیل شمسی، شاہدہ پروین کیانی اور غلام محمد خان کے ساتھ گروپ

مبشر مختار(انٹر نیشنل ہاکی پلیئر)

قومی ہاکی کے گرتے ہوئے معیار کےکئی عوامل ہیں ،ہمکتنی بھی اکیڈمی کھولیں جب تک گراس روٹ لیول پر کام نہیں ہوگا اس ہی طرح کا حال رہیگا ، ہاکی کی بربادی 25سال پہلے سے ہے ، انفرااسٹرکچرکمزور ہوچکا ہے، سیاست بڑھ چکی ہے، کھیل پر توجہ کم ہوگئی ہے، پہلے جو کامیابی تھی اس کی وجہ مضبوط ڈومیسٹک ڈھانچہتھا،ہم اولمپک ، ورلڈ ، ایشین چیمپئن تھے۔ ٹیلنٹ بہت تھا ، انڈر 16، انڈر 18اور انڈر 20کھلاڑی دستیاب ہوتے تھے، اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر ٹیمیں تھیں،کھلاڑیوں پر کام ہوتا تھا۔اس وقت انفرااسٹرکچر برباد ہوگیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان ہاکی نقشے پر موجود نہیں۔  

اس میں قصور حکومت، فیڈریشن کا نہیں ہے بلکہ سارا قصور ڈسٹرکٹ ، زونز کا ہے انہوں نے اپنے ہاتھوں سے یہ سب خرابیاں پیدا کی ہیں۔ یہ سیاست میں زیادہ مشغول ہوگئے جب تک اسٹف نہیں ہوگا ٹیم کیسے بنے گی۔ پاکستان کے پاس گنے چنے لڑکے ہیں ان ہی کو گھماتے رہتے ہیں. جب تک ڈومیسٹک ٹورنامنٹس زیادہ سے زیادہ نہیں ہونگے ، ہاکی بہتر نہیں ہوسکتی. اگر ہم نے کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا ہے تو ہمیں اسکل لیول پر توجہ دینا ہوگی خصوصاً پنالٹی کارنر، گول کیپر کا شعبہ مضبوط کرنا ہوگا۔اس کے علاوہ فزیکل فٹنس پر زیادہ توجہ دینا پڑے گی کیونکہ ہماری فٹنس عالمی معیار کی نہیں ہے۔ ہاکی کے زوال کی وجہ گراس روٹ پر کام نہ ہونا ہے۔ ہمیں اسکولوں اور کلبوں پر کام کرنا چاہیے جب تک ہم اس پر کام نہیں کرینگے مسائل رہیں گے۔ 

پہلے یہ ہوتا تھا کہ اسکول میں کھیلنے والے کھلاڑیوں کو کالج میں داخلے مل جایا کرتے تھے ، اسی طرح کالج کی ٹیم کے لڑکوں کو پروفیشنل کالجز و یونیورسٹیز میں داخلے مل جاتے تھے، ہاکی میں جو بچے شوق سے آتے تھے وہ غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہی نہیں انہیں ہاکی ، شوز بھی ایسوسی ایشن یا فیڈریشن نے ہی مہیا کر تی تھی۔ مگر فیڈریشن کی مالی حیثیت ، اسپانسرز کا نہ ہونا اور حکومت کی عدم دلچسپی نے رہی سہی کسر پوری کردی اور میدان سے خالی ہوگئے۔ 

دوسری طرفمعاشی فکر نے اچھے اچھے نوجوان کھلاڑیوں کی کمر توڑ دی ، اسکولوں اور کالجوں اور ڈیپارٹمنٹوں میں ٹیمیں بند ۔ ایسوسی ایشنز مستحکم نہیں رہ سکی، کوچز، منیجرز اور ٹرینرز کو اپنی نوکری کی فکر لگ گئی. ا کیڈمی کی کوشش ناکام ہوگیں ہیں ، ممی ڈیڈی بچے زیادہ محنت نہیں کرپاتے ہیں، جب تک ہم اسکول اور کالج لیول میں یہ سہولت نہ دینگے جب تک ہاکی کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے رہی ،دنیا بھر میں گورنمنٹ اور پرائیوٹ اسکولوں اور کالجوں میں ہر بچےکو لازمی تین گیمز میں حصہ لینا ہوتا ہے اس کو آپ ان کی کامیابی کی ابتدا کہہ سکتے ہیں .

تازہ ترین
تازہ ترین