• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ایک جو ان مسلمان لڑکی کسی ایسی یونیورسٹی یا تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کررہی ہے ،جہاں مخلوط تعلیم ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے: اگر لڑکی برقعہ پہن کر جاتی ہو، ساتھ پڑھنے والے لڑکے بھی لڑکیوں کے ساتھ ہوں اور پڑھانے والا مرد ہی کیوں نہ ہو، تو یہ مخلوط تعلیم جائز ہے ،اب بعض دین دار لوگ بھی مخلوط تعلیم کو جائز قرار دے رہے ہیں، مزید یہ کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بہت سے مضامین میں لڑکوں کی تعداد کم ہو تی ہے اور لڑکیاں زیادہ ہوتی ہیں، اس لیے بھی جائز ہے، پس اس وجہ سے اُمّت مسلمہ میں بیٹیوں کے ذہنوں میں اس طرح تعلیم کو جائز بتا کر ان کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ برائے مہربانی اس مسئلے کا وضاحت کے ساتھ جواب مرحمت فرما کر امت مصطفیٰﷺ کی بیٹیوں کی درست راستے کی طرف اصلاح فرمائیں۔(عبدالرحمان، کراچی)

جواب: آپ نے سوال میں مخلوط نظامِ تعلیم کو جائز قرار دینے والے طبقے کی طرف سے پیش کیے جانے والے جتنے اعذار بیان کیے ، یہ صرف دل کو تسلی دینے اور کہنے کی حد تک ہی ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ اَخلاقی تباہی کے اسباب میں سے ایک سبب مخلوط نظامِ تعلیم بھی ہے ۔مخلوط نظامِ تعلیم کی مخالفت کرنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ عورتوں کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگادی جائے ۔

حدیثِ پاک میں ہے : ’’ تین قسم کے اشخاص کے لیے دو اجر ہیں :(۱) اہل کتاب کا وہ شخص جو اپنے نبی علیہ السلام پر ایمان لایا، پھر محمد ﷺ پرایمان لایا (۲) غلام جبکہ وہ اللہ کا حق اداکرے اوراپنے مالک کا حق بھی اداکرے۔(۳) وہ شخص جس کے پاس باندی ہو، اُسے ادب سکھائے اوراچھے طریقے سے تعلیم دے ،پھر اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے تو اس کے لیے دواجر ہیں‘‘۔(صحیح بخاری:97) شریعتِ مُطہرہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کے لیے معاشرے کے ہر فرد کو پابند کرتی ہے کہ بدنگاہی اور بے حیائی سے دور رہیں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ’’آپ مسلمان مردوں سے کہیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے، بے شک، اللہ ان کاموں کی خبر رکھنے والاہے ،جنہیں تم کرتے ہو ،اور آپ مسلمان عورتوں سے کہیے ! وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ کریں، مگر جو خود ظاہر ہو اور اپنے دوپٹوں کو اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں‘‘۔ (سورۃ النور:30-31)

کسی مرد کے لیے شرعاً جائز نہیں کہ بلا ضرورتِ شدیدہ کسی اجنبی عورت کی طرف دیکھے، حدیث پاک میں ہے :’’ حضرت جریر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے(اجنبی عورت پر) اچانک نظر پڑجانے کے متعلق پوچھا ،آپ نے مجھے حکم دیا: میں اپنی نظر فوراً پھیرلوں‘‘۔(سُنن ترمذی: 2776) ’’حضرت بریدہ ؓ فرماتے ہیں: آپ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا:اے علیؓ! (اجنبی عورت پر) ایک بار نظر پڑنے کے بعد دوسری بار دیکھنا جائز نہیں ہے،پہلی نظر (غیر ارادی )ہونے کی بناء پر جائز ہے اور دوسری نظر(ارادی ہونے کی بناء پر) ناجائز ہے ‘‘۔ (سُنن ترمذی: 2777)

مخلوط نظامِ تعلیم میں اس قدرا حتیاط اگرچہ ناممکن نہیں، لیکن مشکل ضرور ہے۔ لہٰذا ایسے تعلیمی ادارے جہاں اجنبی مرد و عورت کا اختلاط ہو، قائم کرنا جائز نہیں۔ شرعی پابندی کے علاوہ معاشرت کا تقاضا بھی یہ ہے کہ تعلیمی ادارے جدا جدا ہوں۔

مسجدِ نبوی میں خواتین باجماعت نماز کے لیے حاضر ہوتیں ، رسول اللہ ﷺ نے مردوں کے پیچھے اُن کی صفوں کا اہتمام فرمایا، تاکہ اُن پر غیر محرم مردوں کی نظر نہ پڑے ۔ مسجد سے واپسی کے لیے رسول اللہ ﷺ نے طریقہ مقرر فرمایا۔’’ حمزہ بن اُسید انصاریؓ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں: اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اور وہ مسجد سے باہر تھے ،پس (مسجد سے نکلتے ہوئے) مردوں اور عورتوں کا راستے میں اختلاط ہوا، رسول اللہ ﷺ نے عورتوں سے فرمایا: تم پیچھے رہ کر چلو ،اس لیے کہ خواتین کا راستے کے درمیان میں چلنا جائز نہیں ہے، پس تم(مردوں کے ساتھ مخلوط ہونے کے بجائے) راستے کے کنارے پر چلو، پھر خواتین(گلیوں میں) دیوار کے کنارے چلنے لگیں یہاں تک کہ اُن کے کپڑے دیوار سے رگڑ کھا رہے تھے‘‘۔(سُنن ابوداؤد: 5272) بعدازاں خواتین کے لیے ایک علیحدہ دروازہ بنایا ، جسے ’’باب النسآء‘‘ کہتے ہیں ۔ ’’ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے (اجنبی) مرد کو دو(اجنبی) عورتوں کے درمیان چلنے سے منع فرمایا‘‘۔ (سُنن ابوداؤد:5273) (…جاری ہے…)

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheem@janggroup.com.pk

تازہ ترین