• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ازخود نوٹس کا اختیار صرف چیف جسٹس کا، سپریم کورٹ، جسٹس فائز کا حکم ختم

ازخود نوٹس کا اختیار صرف چیف جسٹس کا، سپریم کورٹ


اسلام آباد (نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ کے لارجر بنچ نے صحافیوں کے حقوق کے تحفظ اورانہیں مختلف حکومتی اداروں کی جانب سے ہراساں کرنے سے متعلق درخواست پر دو رکنی بنچ کی جانب سے جاری کئے گئے حکم نامہ سے متعلق کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد مختصر فیصلہ جاری کیا ہے۔ 

فیصلے میں قرار دیا ہے کہ بنیادی حقوق کے کسی بھی معاملے پر آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت ازخودنوٹس لینے کاحتمی اختیار صرف چیف جسٹس آف پاکستان کو حاصل ہے، تاہم بنیادی حقوق کی پامالی سے متعلق معاملہ سامنے آنے کی صورت میں ازخودنوٹس لینے کے لئے اپنی سفارشات کے ساتھ معاملہ غور کرنے کے لئے چیف جسٹس کو بھجوا سکتا ہے ۔ 

عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل دو رکنی بنچ کی جانب سے پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کی صحافیوں کے حقوق کے تحفظ اورانہیں مختلف حکومتی اداروں کی جانب سے ہراساں کرنے سے متعلق درخواست پر 20اگست 2021 کوجاری کیا جانے والا فیصلہ بھی واپس لیتے ہوئے قرار دیاہے کہ یہ درخواستیں چیف جسٹس کے سامنے رکھی جائیں گی۔ 

قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس منیب اختر ،جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جواب الجواب میں دلائل دیئے۔

جب بنچ بن جائے، کاز لسٹ جاری ہو جائے، بنچ سماعت شروع کردے تو چیف جسٹس کا انتظامی اختیار ختم ہو جاتا ہے سپریم کورٹ کا تشکیل دیا جانے والاہر بنچ ہی سپریم کورٹ ہے۔

قبل ازیں سپریم کورٹ بار کے صدر لطیف آفریدی پیش ہوئے اور استدعا کی یہ پانچ رکنی لارجر بنچ از خود نوٹس اختیار کے استعمال کے تعین کے معاملے پر کوئی فیصلہ جاری کرنے کی بجائے اسے چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی وطن واپسی تک موخر کر دیئے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ شہریوں کے بنیادی حقو ق کے تحفظ کی آخری امید ہوتی ہے، عوام میں اس کے ججوں کی تقسیم کا تاثر نہیں جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں ججوں میں اتفاق اور اتحاد برقرار رہے۔ 

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئر مین خوشدل خان نے موقف اختیار کیا کہ ازخود نوٹس لینا سپریم کورٹ کا اختیار ہے اور اسکا ہر جج سپریم کورٹ کا اختیار رکھتا ہے۔جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ درخواست گزار وں نے درست طریقہ کار نہیں اپنایا ہے۔خوشدل خان نے کہاکہ اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے معاملہ چیف جسٹس کو نہیں بھیجا تو یہ کوئی بڑا ایشو نہیں ہے ۔ 

بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر عوامی مفاد کے تحت ازخود نوٹس کا استعمال کیا جا سکتا ہے، آئین میں ازخود نوٹس کے استعمال کیلئے سپریم کورٹ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے،سپریم کورٹ کا مطلب چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان ہے۔صحافیوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے عدالت نے نوٹس لیا ہے،افسوس کی بات ہے پاکستانی معاشرے میں سچ بولنے پر سزا ملتی ہے۔

دوران سماعت جسٹس قاضی محمد ا مین احمد نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ صحافی برادری کے ساتھ ہے،آزادی صحافت پر حملہ سپریم کورٹ پر حملے کے مترادف ہے لیکن سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کا ایک طریقہ کار ہے۔کیا سائل کو یہ اختیار دیا جا سکتا ہے کہ اس کا مقدمہ کس جج نے سننا ہے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم بنیادی حقوق کے ضامن ہیں،اگر صحافیوں پر کوئی زد پڑی تو ہم جنگی بنیادوں پر آپ کے آگے کھڑے ہونگے۔دوران سماعت ایک اوردرخواست گزار ،عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون نے موقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیارکو سپریم کورٹ نے براہ راست استعمال کرنا ہوتا ہے۔ 

تاہم جب فاضل ججوں نے ان سے سوالات کئے تو وہ کوئی ٹھوس جواب نہ دے سکے ،اور نہ ہی متعلقہ دستاویزات پیش کرسکے ،جس پر عدالت نے انہیں اٹارنی جنرل سے وہ دستاویزات لینے کی ہدایت کی جبکہ جسٹس قاضی محمد امین احمد نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ وہ سپاہی ہیں جو بغیر تیاری اور ہتھیار کے جنگ لڑنے کے لئے آ گیاہے ۔

بعد ازاں عدالت نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ آج ہی عدالتی وقت کے اندر اندر جاری کردیا جائے گا ،بعد ازاں عدالت نے اپنا 2صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ بنیادی حقوق کے کسی بھی معاملے پر ازخودنوٹس لینے کاحتمی اختیار صرف اور صرف چیف جسٹس آف پاکستان کو حاصل ہے۔

تازہ ترین